کراچی جماعت اسلامی کو نئی زندگی اور جلا بخشنے والی نوجوان شخصیت انجینئر حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی پاکستان کے چھٹے امیر کی حیثیت سے جامع مسجد منصورہ کے وسیع گراسی گراؤنڈ میں ہزاروں مرد خواتین کی موجودگی میں حلف اُٹھا چکے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی خوبصورت جمہوری روایات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یقینا ہر پانچ سال بعد جمہوری انداز میں امیر کا انتخاب انفرادیت ہے۔ قیام کے83سال بعد بھی بانی جماعت اور پہلے امیر سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی سربراہی میں مرکزی شوریٰ اور جماعت اسلامی کے دستور کو آج تک من و عن آگے بڑھانا معمولی بات نہیں ہے،درجنوں کالم دیکھ چکا ہوں ہر لکھاری نے اپنی معلومات کے مطابق لکھا ہے تقریباً ہر کالم نویس وہ جماعت اسلامی کو پسند کرتا ہو یا نہ،اُس نے جماعت کی جمہوری روایات کو سراہا ہے، موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے،نو منتخب امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن کو اعزاز حاصل ہے انہوں نے سوشل میڈیا کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اس کو جماعت اسلامی کی دعوت کا ذریعہ بنایا اور کراچی جماعت کو نئی طاقت دینے میں کامیاب رہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے82فیصد سے زائد ارکان کی حق رائے دہی کے بعد بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے حلف اٹھاتے ہی مرکزی مجلس عاملہ اور مرکزی شوریٰ کے اجلاس منعقد کئے ہیں اور شوریٰ کے مشورے سے جماعت اسلامی پاکستان کی تنظیم نو کا آغاز کر دیا ہے آئندہ پانچ سال کے لئے امیر العظیم کو جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی جماعت اسلامی کے بزرگ عرصہ سے نائب امیر کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کرنے والے فرید احمد پراچہ، راشد نسیم، اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی،پروفیسر ابراہیم کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کو سبکدوش کر دیا ہے اور اُن کی جگہ مردان سے ڈاکٹر گوہر رحمن مرحوم کے صاحبزادے شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمن، کراچی سے ڈاکٹر اسامہ رضی کو نائب امیر کے لئے ذمہ داری دے دی ہے، دونوں شخصیات انفرادیت کی حامل اور اعلیٰ صفات کی مالک ہیں۔جناب سراج الحق کے ساتھ بطور نائب امیر ذمہ داری ادا کرنے والے محترم لیاقت بلوچ اور محترم میاں محمد اسلم کو نائب امیر کی حیثیت سے ذمہ داری جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،مزید نائب امراء اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے لئے مشاورت جاری رکھتے ہوئے ہیں ان دِنوں سوشل میڈیا کا طوطی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ میں نے گزشتہ کالم کے عنوان میں بڑا اپ سیٹ لکھا تو بہت سے احباب نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کون سا اپ سیٹ یہ تو جماعت اسلامی کی تنظیم کی خوبصورتی ہے ارکان جس کو چاہیں امیر منتخب کر لیں میرے کالم پر غصے بھرا ردعمل مجھے اچھا لگا۔سوشل میڈیا کا دور ہے جس کو مرضی ریٹنگ کی دوڑ میں شامل کر کے آسمان پر پہنچا دیں جس کی مرضی ایسی تیسی کر دیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے ڈوبتے سورج کے بعد سوشل میڈیا جس انداز میں پھیلاؤ بڑھا رہا ہے اس کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لینے کا بھی موقع نہیں ملتا، میں کیونکہ 26 سال سے پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہوں، پانچ سال تک الیکٹرونک میڈیا میں بطور اینکر پروگرام کر کے تائب ہو چکا ہوں اس لئے اس پر زیادہ اظہار نہیں کروں گا۔جماعت اسلامی میں واٹس اپ اور سوشل میڈیا کے دانشور کی تعداد ہر آنے والے دن بڑھ رہی ہے جو نیک شگون نہیں ہے۔ انجینئر حافظ نعیم الرحمن کو کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے سوشل میڈیا کو جماعت اسلامی کی دعوت کا ذریعہ بنایا۔اب سوال اٹھتا ہے مرکز جماعت اسلامی میں دس سال تک تاریخ ساز خدمات انجام دینے والے جماعت اسلامی کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے سراج الحق کیوں یہ گُر نہ سیکھ سکے اس پر اظہار رائے وقت آنے پر کروں گا۔ البتہ نومنتخب امیر جماعت اسلامی انجینئر حافظ نعیم الرحمن سے کارکنان اور تمام عوام کی توقعات زیادہ ہیں یا دس سال پہلے درویش امیر سید منور حسن کو نظر انداز کر کے بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے امیر سراج الحق سے زیادہ تھیں اُس وقت سراج الحق نے شوریٰ کے مشورے سے جو تنظیم سازی کی تھی، کارکنان اور عوامی توقعات پر کتنا پورے اترے تھے؟ اور انجینئر حافظ نعیم الرحمن سے کیا کیا توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں؟جو تنظیم کا ابتدائی اعلان ہونے کے باوجود اضطراب میں نظر آ رہا ہے لگتا ہے اس کو بڑی جلدی ہے اِس حوالے سے اگر سراج الحق اور انجینئر حافظ نعیم الرحمن کے فیصلوں پر بات کی جائے تو کئی کالم لکھے جا سکے ہیں لیکن کارکنان جماعت اور احباب کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے جماعت اسلامی سے جڑنے والے دوستوں سے گزارش ہے جماعت اسلامی کا امیر طاقتور ضرور ہوتا ہے، مگر دستور جماعت اسلامی کا پابند بھی ہے اور مرکزی شوریٰ کو جواب دہ بھی ہے۔سراج الحق نے اُس وقت اگر پوری تنظیم کو نہیں پلٹا تھا اور موجودہ امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن نہیں پلٹ سکیں گے اس میں یقینا رواداری احترام بھی ہو سکتا ہے؟ عملاً تمام فیصلے امیر جماعت اسلامی کے شوریٰ سے مشاورت اور رہنمائی کا نتیجہ ہی ہوتے ہیں۔

یکم مئی سے پیٹرول، ڈیزل کی قیمت میں بڑے ردوبدل کا فیصلہ، کمی ہوگی یا اضافہ؟ پتہ چل گیا

میں کالم کے عنوان کا ابتدائی حصہ جماعت اسلامی کا نیا جنم دیا ہے؟ اس میں دو رائے نہیں ہے اس وقت جب کراچی کو فتح کرنے والی شخصیت جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھال چکی ہے اِس وقت سبکدوش ہونے والے سراج الحق کو اگر خراج تحسین پیش نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔سراج الحق نے جماعت اسلامی کی تنظیم اِس وقت انجینئر حافظ نعیم الرحمن کے سپرد کی ہے جب جماعت اسلامی کی عاملہ شوریٰ صوبائی تنظیمیں ملک بھر کے کارکنان ایک نشان جھنڈے منشور کو اپنی پہچان بنا چکے ہیں پوری جماعت یکسو ہے۔ آٹھ فروری کے الیکشن میں 95فیصد حلقوں میں جماعت کے نام و نشان کے ساتھ قومی اور صوبائی حلقوں میں امیدوار متعارف کرا چکے ہیں۔ دو ملین سے زائد ووٹ جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ترازو کو ڈل چکے ہیں۔ دس سال پہلے جب مردِ درویش سید منور حسن مرحوم نے جماعت کی تنظیم سراج الحق کے سپرد کی تھی اس وقت جماعت اسلامی کی تنظیم سیاست آدھا تتر آدھا بٹیر بن چکی تھی نصف صدی سے زائد عرصہ سے اتحادی سیاست کی نظر ہونے والی جماعت کا بڑا حصہ نواز شریف اور اس سے بھی بڑا عمران خان اور باقی بچ جانے والا مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا راگ الاپ رہا تھا۔ جماعت اسلامی کو نیا رنگ ڈھنگ اور باقاعدہ سید مودودیؒ کی جماعت اسلامی بنانے، کارکنان کو یکسو کر کے پٹڑی پر چڑھانے کا سہرا تاریخ جب بھی لکھے گی سراج الحق کو جائے گا۔نومنتخب امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن کو یکسو جماعت ملی ہے اللہ نے اُنہیں ذہانت کے ساتھ بردباری اور جرأت سے نوازا ہے اب ان کی ذمہ داری منصورہ کی سیاست کی بھینٹ چڑھنے کی بجائے حضرت عمرؓ کی تقویٰ کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کانٹوں کھائیوں سے بچاتے ہوئے منزل تک پہنچانے کی ہے۔ سراج الحق نے جہاں بہت کچھ کیا اپنے آپ کو قربان کرنے سے بھی گریز نہ کیا، کیا نہ کر سکے؟ جو کرنا چاہئے تھا؟ اور انجینئر حافظ نعیم الرحمن کے لئے کیا چیلنجز ہوں گے؟ مختصر تحریر کروں گا۔ سراج الحق کی دبنگ شخصیت ہونے کے باوجود بہت سے فیصلے اور تبدیلیاں بروقت نہ کر سکے۔ رواداری،احترام ان کے آڑے آتا رہا ایک ایک فرد کو پانچ پانچ ذمہ داریاں دیں نئے افراد کو لانے اور ذمہ داریوں کی تقسیم میں ناکام رہے، مشاورتی عمل کو اپنے قریبی افراد تک محدود رکھا۔ جماعتی اداروں کی طرف توجہ نہ دی نومنتخب امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن سے کارکنان اور عوام کو سراج الحق سے زیادہ امیدیں اور توقعات ہیں جماعت اسلامی میں چاپلوسی کا کلچر پروان چڑھ چکا ہے رواداری کا دور دورہ ہے۔ جماعت اسلامی کی تنظیم تیزی سے دعوتی امور سے کنارہ کش ہو کر سیاسی کشتی میں سوار ہو رہی ہے،جس کے نتیجے میں جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان نے جماعت کی دعوت، جنازہ،ولیمہ، خوشی غمی کی تقریبات میں شامل ہونے کو سمجھ لیا ہے۔جماعت اسلامی کے نام پر بننے والے ادارے اربوں روپے کے ہو گئے ہیں جماعتی ادارے لاوارث نظر آتے ہیں امیر جماعت انجینئر حافظ نعیم الرحمن اور سیکرٹری جنرل جماعت امیر العظیم کے لئے بھی چیلنج ہو گا۔ امیر جماعت اسلامی کا بڑا امتحان یہ ہے جماعتی کارکنان نے اپنے دروازے نئے آنے والوں کیلئے بند کر دیئے ہیں ان کو کھلوائیں، مرکزی تنظیم، مرکزی دفاتر اور اس کے ذمہ داروں کو کام کی بنیاد پر پرکھا جائے، ذمہ داریوں کی تقسیم میرٹ پر کی جائے، ہر طرح کے میڈیا کو ترجیح بنایا جائے۔ جماعتی اداروں کو قومی دھارے میں لایا جائے ایک ایک فرد کو کئی کئی ذمہ داریاں فقط رواداری میں دینے کا کلچر ختم کیا جائے، کم از کم دس ترجمان جماعت اسلامی بنائے جائیں جو جماعت کی پالیسی کو لے کر روزانہ ٹی وی شو میں شریک ہوں،ان کے اجلاس کی صدارت امیر جماعت اسلامی خود کریں۔ جے یو آئی کی طرح دینی مدارس اور مساجد کو ہدف بنایا جائے، ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے، شخصیات کے احترام کے نام پرعہدوں سے نہ ہٹانے کی روایت ختم کی جائے، بروقت فیصلے کیے جائیں، راقم کو یقین ہے نئے امیر مشاورت کے عمل کو مخصوص افراد تک محدود رکھنے کی بجائے ہر سطح پر مشاورتی عمل اور تجاویز مرتب کرتے ہوئے عملی اقدامات کو یقینی بنائیں گے۔جماعت کے ذمہ داران کے جماعت کے نام پر بننے والے اداروں سے طلبہ و طالبات کو جماعت میں لانے کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے،جماعت کی تنظیم کو جماعتی تنظیم کا رنگ دینے کے لئے سید مودودیؒ کی لٹریچر پڑھنے اور پڑھانے، قرآن سے تعلق جوڑنے کے کلچر کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت کے وسائل پر چند افراد کی اجارہ داری کا تاثر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ محترم امیر جماعت اب تک آپ ایک حلقہ کراچی کو آسمانوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے چکے ہیں اب آپ کے سامنے پورا پاکستان نہیں،بلکہ پورا عالم اسلام ہے اسی ویژن کو آگے بڑھاتے ہوئے پورے پاکستان کو منزل دینی ہے کیونکہ جناب والا پاکستان نہیں دنیا بھر میں بسنے والے لاکھوں نہیں، کروڑوں مسلمانوں کی نظریں جماعت اسلامی اور اس کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن کی طرف دیکھ رہی ہیں۔

سفید کرولا گینگ سرگرم، پولیس وردی پہن کر امریکا سے آئی خاتون کو لوٹ لیا

٭٭٭٭٭

QOSHE -   جماعت اسلامی کا نیا جنم، حافظ نعیم الرحمن کے لئے چیلنجز؟ - میاں اشفاق انجم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  جماعت اسلامی کا نیا جنم، حافظ نعیم الرحمن کے لئے چیلنجز؟

31 0
26.04.2024

کراچی جماعت اسلامی کو نئی زندگی اور جلا بخشنے والی نوجوان شخصیت انجینئر حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی پاکستان کے چھٹے امیر کی حیثیت سے جامع مسجد منصورہ کے وسیع گراسی گراؤنڈ میں ہزاروں مرد خواتین کی موجودگی میں حلف اُٹھا چکے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی خوبصورت جمہوری روایات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یقینا ہر پانچ سال بعد جمہوری انداز میں امیر کا انتخاب انفرادیت ہے۔ قیام کے83سال بعد بھی بانی جماعت اور پہلے امیر سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی سربراہی میں مرکزی شوریٰ اور جماعت اسلامی کے دستور کو آج تک من و عن آگے بڑھانا معمولی بات نہیں ہے،درجنوں کالم دیکھ چکا ہوں ہر لکھاری نے اپنی معلومات کے مطابق لکھا ہے تقریباً ہر کالم نویس وہ جماعت اسلامی کو پسند کرتا ہو یا نہ،اُس نے جماعت کی جمہوری روایات کو سراہا ہے، موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے،نو منتخب امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن کو اعزاز حاصل ہے انہوں نے سوشل میڈیا کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اس کو جماعت اسلامی کی دعوت کا ذریعہ بنایا اور کراچی جماعت کو نئی طاقت دینے میں کامیاب رہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے82فیصد سے زائد ارکان کی حق رائے دہی کے بعد بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے حلف اٹھاتے ہی مرکزی مجلس عاملہ اور مرکزی شوریٰ کے اجلاس منعقد کئے ہیں اور شوریٰ کے مشورے سے جماعت اسلامی پاکستان کی تنظیم نو کا آغاز کر دیا ہے آئندہ پانچ سال کے لئے امیر العظیم کو جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی جماعت اسلامی کے بزرگ عرصہ سے نائب امیر کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کرنے والے فرید احمد پراچہ، راشد نسیم، اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی،پروفیسر ابراہیم کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کو سبکدوش کر دیا ہے اور اُن کی جگہ مردان سے ڈاکٹر گوہر رحمن مرحوم کے صاحبزادے شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمن، کراچی سے ڈاکٹر اسامہ رضی کو نائب امیر کے لئے ذمہ داری دے دی ہے، دونوں شخصیات انفرادیت کی حامل اور اعلیٰ صفات کی مالک ہیں۔جناب سراج الحق کے ساتھ بطور نائب امیر ذمہ داری ادا کرنے والے محترم لیاقت بلوچ اور محترم میاں محمد اسلم کو نائب امیر کی حیثیت سے ذمہ داری جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،مزید نائب امراء اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے لئے مشاورت جاری رکھتے ہوئے ہیں ان دِنوں سوشل میڈیا کا طوطی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ میں نے گزشتہ کالم کے عنوان میں بڑا اپ سیٹ لکھا تو بہت سے احباب نے ناراضگی کا اظہار........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play