جو مشورہ سنجیدہ حلقے مسلسل دے رہے تھے، کراچی کے تاجروں نے وہ وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں اُنہیں دیا۔اڈیالہ جیل میں بیٹھے ہوئے بانی چیئرمین تحریک انصاف سے رابطہ کرنے کا مشورہ، یہ مشورہ بھی دیا گیا بھارت سے تعلقات کی بحالی پر توجہ دی جائے۔یہ بھی کہا گیا کہ جب معیشت کو بہتر بنانے کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو ملک کے حالات بہتر بنانے کے لئے بند دروازے کیوں نہیں کھولے جا سکتے۔میں سمجھتا ہوں کراچی میں عارف حبیب اور ان کے ساتھیوں نے برف پگھلانے کی کوشش کی ہے۔بند گلی سے نکلنے کا راستہ دکھایا ہے اگر کوئی سمجھتا ہے نہیں ایسا ممکن نہیں،ہمیں تن تنہا ہی سفر کرنا ہے اور خود ہی کشتی کو منزل پر پہنچا دیں گے تو یہ اُس کی کوتاہ نظری بھی ہے اور ہٹ دھرمی بھی،جو لوگ بند کمروں میں نہیں بیٹھے اور عوام میں رہتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ بے یقینی کس قدر بڑھ چکی ہے، صرف بے یقینی ہی نہیں،بلکہ حد درجہ مایوسی بھی۔ہم کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں،کسی کو کچھ پتہ نہیں، یوں کہنے کو سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے۔اسمبلیاں بھی کام کر رہی ہیں اور عدالتیں بھی، ادارے بھی چل رہے ہیں اور بڑی بڑی امیدوں بھرے خواب بھی دکھائے جا رہے ہیں،مگر اس کے باوجود فضاء میں ایک بے چینی سی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ مسنگ ہے وہ اعتبار اور اعتماد موجود نہیں،جو آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے، جہاں ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر موجود صدرِ مملکت یہ کہیں سیاسی استحکام اور سیاسی مفاہمت کے لئے ضروری ہے، اُس کے بعد کسی کو شک رہ جاتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہمارے نظام سے عنقا ہیں پھر ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں،جو بات کراچی کے تاجر محسوس کر رہے ہیں وہ بات ہماری سیاسی قیادت کو کیوں سمجھ نہیں آتی۔اب ایسا بھی نہیں کہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان کوئی فاصلہ ہو۔ اِس وقت بہترین ورکنگ ریلیشن شپ دونوں میں موجود ہے پھر بڑے قدم کیوں نہیں اٹھائے جاتے وہی انتقام اور غیر سیاسی سوچ کیوں اپنا رکھی ہے جو کبھی راستے نہیں کھولتی اور نہ ہی ملک کو آگے بڑھنے دیتی ہے۔

یکم مئی سے پیٹرول، ڈیزل کی قیمت میں بڑے ردوبدل کا فیصلہ، کمی ہوگی یا اضافہ؟ پتہ چل گیا

پچھلے دِنوں اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران عمران خان سے صحافیوں نے سوال پوچھا کہ اُن سے کسی نے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے اِس کا جواب نفی میں دیا۔گویا انہوں نے یہ نہیں کہا وہ کسی سے رابطہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مسلم لیگی رہنما رانا ثناء اللہ نے بڑی سچی بات کی ہے کہ جب مفاہمت ہو جاتی ہے تو کیسز کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی، ہماری تاریخ بھی اسی بات کی گواہ ہے کہ کیسز صرف اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے بنائے جاتے ہیں،وقت گذر جاتا ہے تو سارے کیس بھی پانی کے بلبلوں کی طرح ختم ہو جاتے ہیں اور عدالتیں بھی دھڑا دھڑ فیصلے دے رہی ہوتی ہیں۔حالیہ دِنوں میں شریف فیملی خصوصاً نواز شریف کے خلاف کیسز کے جس طرح سرعت کے ساتھ فیصلے ہوئے،سال پہلے تک کوئی اُن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔تاجر و صنعت کار ملک کی معیشت کا بیرو میٹر ہوتے ہیں اُن کی حالات پر نظر ہوتی ہے انہیں مصنوعی اقدامات سے سیاسی و اقتصادی استحکام کا یقین نہیں دلایا جا سکتا۔ وہ اگر یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ملک میں استحکام نہیں تو اُن کی بات کو تسلیم کر لینا چاہئے۔وزیراعظم شہباز شریف ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے ہیں ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے سب کو مل بیٹھنا ہو گا۔ ”سب“ سے اُن کی مراد کیا ہے؟باقی سارے تو اُن کے ساتھ حکومت میں موجود ہیں ایک تحریک انصاف ہی بڑی سیاسی جماعت ہے جو اپوزیشن میں کھڑی ہے۔اگر واقعی مل بیٹھ کے ملک کے مسائل کا حل نکالنا ہے تو پھر تحریک انصاف کو دعوت دینی ہو گی۔حکومت کا ہمیشہ ماحول کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔اگر واقعی یہ جمہوری سیٹ اَپ خود مختار ہے تو پھر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو اُس کشیدگی کو ختم کریں جو اس وقت ماحول میں تناؤ پیدا کئے ہوئے ہے اس کے لئے سب سے اہم قدم وہی ہے جس کی طرف کراچی کے تاجروں نے اشارہ کیا ہے،اڈیالہ جیل میں ایک ایسا شخص بیٹھا ہوا ہے جس کے پاس ماحول کو نارمل کرنے کی چابی ہے یہ تو ممکن نہیں کہ ملک کی ایک بڑی جماعت کے بانی چیئرمین کو دو سو مقدمات میں اندر رکھ کر یہ خواہش کی جائے کہ وہ جماعت سب کچھ بھلا کر چین سے بیٹھ جائے گی،سڑکوں پر احتجاج ہوتا رہے تو استحکام نا پید ہو جاتا ہے۔اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کر لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔

سفید کرولا گینگ سرگرم، پولیس وردی پہن کر امریکا سے آئی خاتون کو لوٹ لیا

اِس وقت اقتدار کے منظر نامے پر دو ایسی شخصیات موجود ہیں،جن کے بارے میں کہا جاتا ہے سیاسی لچک اور مفاہمت پر یقین رکھتی ہیں،میری مراد صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف ہیں، بظاہر دونوں کی سوچ بھی یہی ہے ملک میں سیاسی استحکام آنا چاہئے۔دونوں کے درمیان بے مثال ہم آہنگی بھی ہے اور باہمی رابطہ بھی بہت مضبوط ہے۔اگر ان دونوں کے ہوتے ملک میں سیاسی استحکام کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا تو پھر اس تاثر کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا کہ کوئی تیسری طاقت ہے جو نظام پر گرفت کئے ہوئے ہے۔اس تیسری طاقت کو بھی اگر وہ آئینی اداروں کے باوجود اپنی طاقت منوا رہی ہے یہ باور کرانا کہ ملک اس طرح نہیں چل رہا،صدر اور وزیراعظم کی ہی ذمہ داری ہے،کیونکہ اِس وقت وہ ملک کے آئینی اور انتظامی سربراہ ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی میں تاجروں سے ملاقات کے دوران یقینا اچھی باتیں کی ہیں۔معیشت کے پہیے کو چلانے کے لئے اُن کی خود مختاری اور کردار کو تسلیم کیا ہے یہ بھی کہا کہ وہ اُن کی ہر تجویز پر عمل کریں گے۔گویا وہ بزنس کمیونٹی کا اعتماد ہر قیمت پر بحال کرنا چاہتے ہیں تاہم انہیں یہ بھی علم ہو گا،یہ کمونٹی ملکی حالات کے حوالے سے بڑی حساس ہوتی ہے اس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ذرا سی سیاسی ہلچل سٹاک ایکسچینج کو آسمان سے زمین پر لے آئی ہے اسی لئے تاجروں نے سیاسی استحکام لانے پر زور دیا ہے اور اس کا حل یہ تجویز کیا ہے۔اڈیالہ جیل میں بیٹھے شخص سے رابطہ کیا جائے،کیا ایسا ممکن ہو سکے گا؟

سعودی عرب میں بس ڈرائیورز پر نئی پابندی لگ گئی

QOSHE -    سیاسی استحکام اور اڈیالہ جیل کا راستہ - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   سیاسی استحکام اور اڈیالہ جیل کا راستہ

22 0
26.04.2024

جو مشورہ سنجیدہ حلقے مسلسل دے رہے تھے، کراچی کے تاجروں نے وہ وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں اُنہیں دیا۔اڈیالہ جیل میں بیٹھے ہوئے بانی چیئرمین تحریک انصاف سے رابطہ کرنے کا مشورہ، یہ مشورہ بھی دیا گیا بھارت سے تعلقات کی بحالی پر توجہ دی جائے۔یہ بھی کہا گیا کہ جب معیشت کو بہتر بنانے کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو ملک کے حالات بہتر بنانے کے لئے بند دروازے کیوں نہیں کھولے جا سکتے۔میں سمجھتا ہوں کراچی میں عارف حبیب اور ان کے ساتھیوں نے برف پگھلانے کی کوشش کی ہے۔بند گلی سے نکلنے کا راستہ دکھایا ہے اگر کوئی سمجھتا ہے نہیں ایسا ممکن نہیں،ہمیں تن تنہا ہی سفر کرنا ہے اور خود ہی کشتی کو منزل پر پہنچا دیں گے تو یہ اُس کی کوتاہ نظری بھی ہے اور ہٹ دھرمی بھی،جو لوگ بند کمروں میں نہیں بیٹھے اور عوام میں رہتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ بے یقینی کس قدر بڑھ چکی ہے، صرف بے یقینی ہی نہیں،بلکہ حد درجہ مایوسی بھی۔ہم کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں،کسی کو کچھ پتہ نہیں، یوں کہنے کو سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے۔اسمبلیاں بھی کام کر رہی ہیں اور عدالتیں بھی، ادارے بھی چل رہے ہیں اور بڑی بڑی امیدوں بھرے خواب بھی دکھائے جا رہے ہیں،مگر اس کے باوجود فضاء میں ایک بے چینی سی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ مسنگ ہے وہ اعتبار اور اعتماد موجود نہیں،جو آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے، جہاں ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر موجود صدرِ مملکت یہ کہیں سیاسی استحکام اور سیاسی مفاہمت کے لئے ضروری ہے، اُس کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play