پنجاب میں کچھ عرصے سے نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے،دو دن سے تو یہ بحث جاری ہے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کو آئی جی کی وردی پہن کر پولیس پریڈ میں جانا چاہئے تھا یا نہیں،لیکن آج کا موضوع یہ نہیں۔البتہ اس بات سے جڑا موضوع ضرور ہے کہ پنجاب میں خواتین کتنی تیزی سے آگے آ رہی ہیں۔ابھی چند روز پہلے جب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی پہلی خاتون وائس چانسلر مقرر ہوئیں تو160سال کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔یہ اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستانی معاشرہ کروٹیں لے رہا ہے اور نئی روایات کی شروعات ہو چکی ہیں۔سب سے بڑی خبر تو اُس وقت دنیا کے سامنے آئی جب دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بنی تھیں۔ پاکستان میں کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ دقیانوسی روایات میں جکڑے معاشرے کی ایک خاتون وزارتِ عظمیٰ جیسے بڑے منصب پر فائز ہو سکیں گی۔ ایک نہیں دو بار بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو گویا ایک دروازہ کھل گیا۔اس کے بعد ایک بڑا بریک تھرو اُس وقت ہوا تھا، جب آرمی کی سرجن جنرل ایک خاتون کو بنایا گیا تھا،سیاسی نقطہ نظر سے مریم نواز کی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نامزدگی ایک چونکا دینے والا فیصلہ ضرور تھی،مگر اب انہوں نے خود کہا ہے کہ آگ کا دریا عبور کر کے اس منصب تک پہنچی ہیں۔ اُن کے سٹائل اور طرزِ حکمرانی پر مجھے حیرت اِس لئے نہیں ہو رہی کہ وہ اپنے سے پہلے آنے والے وزرائے اعلیٰ سے اِس لئے مختلف ہیں کہ اُن کا تعلق صنف ِ نازک سے ہے،جسے اب صنف ِ آہن بن کر دکھانا ہے۔اُن کی حکمرانی پر تنقید کرنے والے بھی بہت ہیں اور اُن کی جماعت کے لوگ تعریف بھی بہت کرتے ہیں۔بہرحال وہ روزانہ کچھ نیا کر کے دکھانے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور پریڈ کی سلامی کے لئے پولیس کی وردی میں جانے کا فیصلہ بھی غالباً انہوں نے اِس لئے کیا تھا۔

دفاع ہوا مزید مضبوط، چین میں پاکستان کیلئے تیار ہونے والی پہلی ہنگور کلاس آبدوز کا افتتاح ہوگیا

پنجاب میں کل ایک اچھوتا واقعہ ہوا۔ملک کے پڑھے لکھے طبقے نے ایک خاتون کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔کسی کو عہدہ دے دینا علیحدہ بات ہے لیکن میدان میں براہِ راست اُتر کر میدان مار لینا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔میں ذکر کر رہا ہوں پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے انتخابات کا۔ یہ کالج اساتذہ کی سب سے بڑی اور نمائندہ تنظیم ہے جس میں 17ویں گریڈ سے لے کر اکیسویں گریڈ تک کے اساتذہ شامل ہوتے ہیں۔اُن کا کم سے کم تعلیمی معیار ماسٹر ڈگری اور اعلیٰ ترین معیار پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریل ہوتا ہے،گویا یہ لوگ ذہانت، تجربے اور تعلیم کے حوالے سے اِس ملک کی کریم ہیں،انہی کے دم قدم سے ملک میں وہ نوجوان پیدا ہوتے ہیں جو فوج،عدلیہ اور بیورو کریسی کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں اس کمیونٹی کے انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں تاہم پچھلے چند برسوں میں اُن کی شفافیت پر سوالات اٹھانے اور مخالف دھڑے بنانے کی روایت بھی عام ہوئی،جس سے اس تنظیم کی یکجہتی متاثر ہوئی۔ اس بار بھی ایک نے ایسا کرنے کی کوشش کی،عدالت سے حکم امتناعی لینے کا شوشہ بھی چھوڑا گیا،مگر اُسے کامیابی نہ ہوئی،اور یہ انتخابات25اپریل کو بحسن و خوبی تکمیل پا گئے۔سب سے اہم بات یہ ہے ہارنے والوں نے خوشدلی سے اپنی شکست تسلیم کی اور جیتنے والوں کو سب سے پہلے مبارکباد دی تاہم اِس سے بھی اہم بات یہ ہے پنجاب بھر کے مرد و زن کالج اساتذہ نے اپنی صدارت کے لئے ایک خاتون کا انتخاب کیا۔لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فائزہ رعنا بھاری اکثریت سے پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہو گئیں یہ الیکشن آسان نہیں ہوتے،اس میں ایک کالج کے اساتذہ اپنے یونٹ اور ڈویژن کے ساتھ ساتھ صوبائی عہدیداروں کا بھی انتخاب کرتے ہیں اس بار اتحاد اساتذہ نے یہ میدان مار لیا۔ڈاکٹر فائزہ رعنا کے مقابلے میں صوبائی صدارت کے لئے ڈاکٹر طارق کلیم امیدوار تھے،جو پہلے بھی صدر رہ چکے ہیں تاہم جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اساتذہ نے ڈاکٹر فائزہ رعنا کو بھاری اکثریت سے عہدہئ صدارت سونپ دیا۔ڈاکٹر طارق کلیم نے اپنے دورِ صدارت میں اساتذہ کے مسائل حل کرانے اور اُن کی فلاح و بہبود کے لئے مثالی کام کیے تاہم اُن کی حریف ڈاکٹر فائزہ رعنا اساتذہ کی جدوجہد میں ہمیشہ فرنٹ فٹ پر رہیں، انہوں نے صوبے کے9 میں سے سات ڈویژنوں میں کامیابی حاصل کی۔

کراچی کی رہائشی شبنم نے گیس کی لوڈشیڈنگ اور فکس چارجز کے نفاذ کیخلاف بڑا قدم اٹھا لیا

پنجاب کے14 ہزار سے زائد کالج اساتذہ کی براہ راست نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر فائزہ رعنا پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ایک طرف کالج اساتذہ کے مسائل ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ6500 اساتذہ کی پے پروٹیکشن کا ہے، جو سالہا سال سے زیر التواء چلا آ رہا ہے،صوبے میں سکول اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے ٹیچرز پر ہمیشہ مراعات کی بارش کی گئی،تیز رفتار ترقیاں اور تنخواہوں میں اضافہ کالج اساتذہ کی نسبت بہت زیادہ ہوا۔ایک اور ہم مسئلہ جس کی طرف پپلا کی قیادت کو توجہ دینی ہو گی،وہ کالجز میں مستقل پرنسپلز کی عدم تعیناتی ہے۔سالہا سال سے پنجاب کے کالجز کی ایک بڑی تعداد عارضی پرنسپلوں کے تحت کام کر رہی ہے،جو بے یقینی کے سبب بڑے فیصلے کرنے سے کتراتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ کالجوں کی لائبریریوں، لیبارٹریوں اور سپورٹس کے فنڈز میں اضافے کا معاملہ بھی اٹھایا جانا چاہئے۔کالج اساتذہ کی سب سے بڑی شکایت یہ رہی ہے کہ اُن کی بروقت ترقیاں نہیں ہوتیں۔ہائر ایجوکیشن کے سیکرٹری ہمیشہ اساتذہ کے نمائندوں کو اپنے کام میں مداخلت کا باعث سمجھتے ہیں،حالانکہ وہ ہزاروں کالج اساتذہ کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں،اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ہاں آخر میں خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کے مصداق ڈاکٹر فائزہ رعنا کو یہ کلچر بھی یقینی بنانا چاہئے کہ اساتذہ کالج اوقات کے دوران نجی اداروں میں نہیں پڑھائیں گے اور اپنا پیریڈ مس نہیں کریں گے اگر اس پر اُن کی پرنسپل صاحبان جواب طلبی کریں گے تو ایسوسی ایشن اُن کا ساتھ نہیں دے گی،بلکہ پرنسپل کے ساتھ کھڑی ہو گی۔

اسرائیلی بمباری میں شہید حاملہ خاتون کی بعد از وفات پیدا ہونے والی بیٹی بھی چل بسی

QOSHE -   اب کالج اساتذہ کی صدر بھی ایک خاتون - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  اب کالج اساتذہ کی صدر بھی ایک خاتون

33 0
27.04.2024

پنجاب میں کچھ عرصے سے نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے،دو دن سے تو یہ بحث جاری ہے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کو آئی جی کی وردی پہن کر پولیس پریڈ میں جانا چاہئے تھا یا نہیں،لیکن آج کا موضوع یہ نہیں۔البتہ اس بات سے جڑا موضوع ضرور ہے کہ پنجاب میں خواتین کتنی تیزی سے آگے آ رہی ہیں۔ابھی چند روز پہلے جب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی پہلی خاتون وائس چانسلر مقرر ہوئیں تو160سال کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔یہ اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستانی معاشرہ کروٹیں لے رہا ہے اور نئی روایات کی شروعات ہو چکی ہیں۔سب سے بڑی خبر تو اُس وقت دنیا کے سامنے آئی جب دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بنی تھیں۔ پاکستان میں کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ دقیانوسی روایات میں جکڑے معاشرے کی ایک خاتون وزارتِ عظمیٰ جیسے بڑے منصب پر فائز ہو سکیں گی۔ ایک نہیں دو بار بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو گویا ایک دروازہ کھل گیا۔اس کے بعد ایک بڑا بریک تھرو اُس وقت ہوا تھا، جب آرمی کی سرجن جنرل ایک خاتون کو بنایا گیا تھا،سیاسی نقطہ نظر سے مریم نواز کی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نامزدگی ایک چونکا دینے والا فیصلہ ضرور تھی،مگر اب انہوں نے خود کہا ہے کہ آگ کا دریا عبور کر کے اس منصب تک پہنچی ہیں۔ اُن کے سٹائل اور طرزِ حکمرانی پر مجھے حیرت اِس لئے نہیں ہو رہی کہ وہ اپنے سے پہلے آنے والے وزرائے اعلیٰ سے اِس لئے مختلف ہیں کہ اُن کا تعلق صنف ِ نازک سے ہے،جسے اب صنف ِ آہن بن کر دکھانا ہے۔اُن کی حکمرانی پر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play