پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ہر خوردمند فکر مند اور پریشان ہے۔ خصوصاً اس ملک کا سفید پوش طبقہ روز جیتا روز مرتا ہے جب سے اس ملک پر نیا سورج چڑھا اور تبدیلی کی ہوا چلی، سکھ کا سانس لینا نصیب نہیں ہوا، اب تو یہ یقین ہو گیا ہے کہ ہماری پوری اشرافیہ(معہ حکمران اپوزیشن سرمایہ دار) کو نہ تو اس ملک کی کوئی فکر ہے او رنہ ہی ان سب کا عوام نامی مخلوق سے کچھ لینا دینا ہے اور یہ مخلوق ایسی ہے کہ ہر ایک سے امید وابستہ کرلیتی، پھر مایوس ہوتی اور نئی امید باندھ لیتی ہے۔ میں نے پرائمری کے طالب علم کی حیثیت سے اس ملک کو بنتے دیکھا اور اپنے والد محترم کی دن رات کی جدوجہد بھی دیکھی، مجھے ابتداء ہی سے ملک کا احساس پیدا ہو گیا اور تاعمر میں اسی سہارے جی رہا ہوں لیکن اب یہ احساس اجاگر اور یقینی ہوتا جا رہا ہے کہ جو حضرات ملک کے استحکام کے نام پر سیاست کرتے اور ٹسوے بہاتے ہیں ان کو ہی ہم اور ہمارے ملک سے کوئی غرض نہیں،اس کا اندازہ کراچی میں سپریم کورٹ میں ہونے والی اس کارروائی سے ہوجاتا ہے جس کے تحت ایک ناجائز پلازہ گرایا گیا اور جمعرات کو جب فاضل عدالت نے بار بار پوچھا کہ اس کا مال کون ہے تو کوئی بتانے کو تیار نہیں تھا، بمشکل وکیل محترم کو ظاہر کرنا ہی پڑا کہ مالک کامران ٹیسوری ہیں اور یہ کامران ٹیسوری اس وقت صوبہ سندھ کے گورنر ہیں اور اس حیثیت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں،(ٹیسوری صاحب نے ”تجوری ہائٹس“ سے لاعلمی کا بیان دیا ہے) عدالتی کارروائی کے دوران ہونے والے اس انکشاف سے چند دوستوں نے یہ توقع باندھ لی کہ اب استعفے کا اعلان آ جائے گا میں نے عرض کیا اگر یہ ہونا ہوتا تو اسی وقت ہو جاتا جب عدالت میں طے ہوا کہ عمارت قبضہ والی زمین پر بلا اجازت اور غیر قانونی طو رپر قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرکے تعمیر کی گئی تھی۔ ہمارا اور دوستوں کا یہ خیال خام ثابت ہوا، یہ دیگ کا ایک دانہ ہے، یہاں تو پوری دیگ دیکھنا ہوگی، خصوصی طور پر کراچی اور اسلام آباد کی تعمیرات کا جائزہ لیں تو اشرافیہ کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے۔

دفاع ہوا مزید مضبوط، چین میں پاکستان کیلئے تیار ہونے والی پہلی ہنگور کلاس آبدوز کا افتتاح ہوگیا

ہفتہ رفتہ کے دوران وزیراعظم محمد شہباز شریف کراچی تشریف لے گئے اور وہاں بزنس کمیونٹی سے ملاقات کی اور ملکی معیشت کے حوالے سے فکر مندی کے ساتھ گفتگو کی اور ان حضرات کو یہ یقین بھی دلا دیا کہ حکومت پی آئی اے سمیت تمام سرکاری اداروں کی نجکاری کر دے گی اس لئے تاجر اور صنعتکار برادری آگے بڑھے،تعاون کرے اور ملک کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کریں برآمدات میں اضافہ کریں کہ زرمبادلہ کے مسائل ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ تاجر برادری نے تعاون کی بات کی لیکن ساتھ ہی جو تجاویز پیش کیں وہ اپنی صنعتوں کے حوالے سے تھیں کہ انہوں نے برآمدات کے حوالے سے بجلی اور گیس سستی کرنے پر زور دیا، ظاہر ہے کہ برآمدات کے حوالے سے بات تھی تو یہ رعایت صنعتوں کے لئے مانگی گئی ہو گی کہ آئی ایم ایف کے اصرار پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ تو ہوا، اصل کام وہ سبسڈی ختم کرنے والا ہے جو صنعتی ترقی اور برآمدات کے نام پر صنعتوں کو حاصل تھی کہ یہ حضرات صرف اسی طرح عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی دوڑ میں شامل ہونے کا نسخہ تجویز کرتے ہیں۔

کراچی کی رہائشی شبنم نے گیس کی لوڈشیڈنگ اور فکس چارجز کے نفاذ کیخلاف بڑا قدم اٹھا لیا

اس محفل میں ایک ممتاز صنعت کار عارف حبیب نے وزیراعظم کو صائب مشورہ دیا کہ حکومت بھارت سمیت ہمسایہ ممالک سے تعلقات درست کرے اور ساتھ ہی ساتھ کپتان سے بھی مذاکرات کئے جائیں، ان کی طرف سے یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ انہوں نے سپہ سالار کو بھی یہ کہا تھا تو ان کی طرف سے کہا گیا، سب تعاون کرتے ہیں، صرف ایک جماعت ہی الگ ہے۔ یہ مشورہ یقینا مفید ہے اور ہمارا موقف ابتداء ہی سے یہ ہے کہ قومی امور میں قومی مصالحت اور اتفاق رائے ہونا چاہیے لیکن یہ آرزو اب تک تو پوری نہیں ہوئی بلکہ اس کے الٹ ہوا ہے، حالیہ انتخابات (8فروری) سے قبل پورے یقین اور زور شور سے کہا جا رہا تھا کہ مسائل کا حل عام انتخابات ہیں اور یہ ہو گئے، لیکن مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھ گئے اور اب تو ڈور کا سرا بھی نہیں مل رہا، جہاں تک مذاکرات یا بات چیت کا تعلق ہے تو اس سے کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن میرا سوال ہے کہ کیا موجودہ حالات میں ایسا ممکن ہے، کیا جو خبریں گردش کرنے اور ان کی تردید ہونے لگی ہے کہ قیدی نمبر804سے مقتدر حضرات کی بات کی کوشش ہے، میرا سوال ہے کہ کیا یہ درست ہیں؟ اس کے کوئی آثار نظر نہیں آئے بلکہ حالات مزید خراب ہو رہے ہیں، میرا زندگی بھر کا تجربہ تو یہی تھا کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں اور انداز گفتگو مہذب ہوتا ہے، کئی بار میرے سمیت بہت دوست لکھ چکے کہ ماضی اچھا تھا، نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، بے نظیر بھٹو اور حسین شہید سہروردی سے لے کر نواب افتخار ممدوٹ اور میاں ممتاز محمد خان دولتانہ تک اخلاق کا دور دورہ تھا، لیکن جب سے کپتان کا سیاسی قد کاٹھ بڑھا، تب سے بدتہذیبی اور گالی کا کلچر بھی آ گیا اور سیاست کی گفتگو بھی اچھی نہ رہی، حتیٰ کہ برداشت ختم ہوئی اور ہم سب کو یہ احساس ہوا کہ یہ حضرات ایک دوسرے کو ختم کرنے کے درپے ہیں، ہمارے بہت سے بھائی ایسے بھی ہیں جو ہماری طرح مفاہمت کا مشورہ دیتے چلے آ رہے ہیں اور اب تو یہ کہا جاتا ہے کہ پہل برسراقتدار حضرات کو کرنا چاہیے ایک حد تک یہ درست ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب پاکستانی قومی اتحاداور پیپلزپارٹی بھی حالیہ حالات جیسے عمل سے دوچار تھی۔ قومی اتحاد کی ساری قیادت نظربند یا جیلوں میں تھی، صرف پیر علی مردان شاہ پیر آف پگاروآزاد تھے اور بھٹو ان سے ملنے بھی گئے،انہوں نے مولانا مودودی اور نوابزادہ نصراللہ سے بھی ملاقاتیں کی تھیں لیکن ڈیڈ لاک نہ ٹوٹا، حتیٰ کہ نواب زادہ نصراللہ بھی گرفتار کرلئے گئے اور پھر اسی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لئے مجاہداول سردار عبدالقیوم (مرحوم) کو جیل سے باہر لایا گیا اور ان کو سرکاری مراعات دے کر اکابرین سے بات چیت کا عمل سونپا گیا۔ا ن کی ہمت سے ڈیڈ لاک ٹوٹا اور مذاکرات ہوئے باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔ آج بھی کچھ ایسی صورت حال ہے۔ ڈیڈ لاک تو ایک طرف یہاں حالات ایسے ہیں، ”میں چوروں، ڈاکوؤں سے بات نہیں کروں گا“ اور عمل یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے صوبے کا وزیراعلیٰ محترم علی امین گنڈا پور کو بنا دیا گیا جو ماضی میں کلاشنکوف لہرا کر دھمکی دے چکے تھے۔ انہوں نے اب وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اسلام آباد پر قبضہ کی دھمکی دے دی ہے جو وہ احتجاج والے دور میں بھی دیتے رہے لیکن اب ان کی حیثیت وفاق کی ایک اکائی کے سربراہ کی ہے اور یہ منصب تحمل کا تقاضا کرتا ہے ایسے میں عارف حبیب صاحب اور میرے دانشور دوست خود بتا دیں کہ بات چیت کیسے اور تعلقات کیوں کر بہتر ہوں، اس کا اندازہ اس امر سے ہی لگا لیں کہ علی امین گنڈا پور کی یہ دھمکی اوراشتعال انگیز گفتگو اپنی جگہ، قومی اسمبلی میں کیا ہو رہا ہے اور جو زبان عمر ایوب استعمال کر رہے وہ کس پارلیمانی اصول کے تحت پارلیمانی اور مشرقی آداب کے مطابق ہے،کم از کم گفتگو کا انداز تو تبدیل کر لیا جائے۔ احتجاج آپ کا حق ہے، کریں اور کرتے رہیں لیکن انداز بیان تو تحمل والا ہونا چاہیے۔ ان حالات میں کون ان حضرات سے مذاکرات کر سکتا ہے، سپیکر ایاز صادق اپنے فرائض کے حوالے سے ایوان کے ماحول کی بہتری کے لئے کوشش کررہے ہیں، ان کو کامیاب ہونا چاہیے۔ جوش پرہوش کو غالب آنا لازم ہے، ورنہ ”برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر!“ ہمارے ملک کا حقیقی چہرہ سفید پوش طبقہ ختم ہو جائے گا۔

اسرائیلی بمباری میں شہید حاملہ خاتون کی بعد از وفات پیدا ہونے والی بیٹی بھی چل بسی

QOSHE -  تم ہی کہو، یہ انداز گفتگو کیا ہے؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 تم ہی کہو، یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

26 1
27.04.2024

پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ہر خوردمند فکر مند اور پریشان ہے۔ خصوصاً اس ملک کا سفید پوش طبقہ روز جیتا روز مرتا ہے جب سے اس ملک پر نیا سورج چڑھا اور تبدیلی کی ہوا چلی، سکھ کا سانس لینا نصیب نہیں ہوا، اب تو یہ یقین ہو گیا ہے کہ ہماری پوری اشرافیہ(معہ حکمران اپوزیشن سرمایہ دار) کو نہ تو اس ملک کی کوئی فکر ہے او رنہ ہی ان سب کا عوام نامی مخلوق سے کچھ لینا دینا ہے اور یہ مخلوق ایسی ہے کہ ہر ایک سے امید وابستہ کرلیتی، پھر مایوس ہوتی اور نئی امید باندھ لیتی ہے۔ میں نے پرائمری کے طالب علم کی حیثیت سے اس ملک کو بنتے دیکھا اور اپنے والد محترم کی دن رات کی جدوجہد بھی دیکھی، مجھے ابتداء ہی سے ملک کا احساس پیدا ہو گیا اور تاعمر میں اسی سہارے جی رہا ہوں لیکن اب یہ احساس اجاگر اور یقینی ہوتا جا رہا ہے کہ جو حضرات ملک کے استحکام کے نام پر سیاست کرتے اور ٹسوے بہاتے ہیں ان کو ہی ہم اور ہمارے ملک سے کوئی غرض نہیں،اس کا اندازہ کراچی میں سپریم کورٹ میں ہونے والی اس کارروائی سے ہوجاتا ہے جس کے تحت ایک ناجائز پلازہ گرایا گیا اور جمعرات کو جب فاضل عدالت نے بار بار پوچھا کہ اس کا مال کون ہے تو کوئی بتانے کو تیار نہیں تھا، بمشکل وکیل محترم کو ظاہر کرنا ہی پڑا کہ مالک کامران ٹیسوری ہیں اور یہ کامران ٹیسوری اس وقت صوبہ سندھ کے گورنر ہیں اور اس حیثیت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں،(ٹیسوری صاحب نے ”تجوری ہائٹس“ سے لاعلمی کا بیان دیا ہے) عدالتی کارروائی کے دوران ہونے والے اس انکشاف سے چند دوستوں نے یہ توقع باندھ لی کہ اب استعفے کا اعلان آ جائے گا میں نے عرض کیا اگر یہ ہونا ہوتا تو اسی وقت ہو جاتا جب عدالت میں طے ہوا کہ عمارت قبضہ والی زمین پر بلا اجازت اور غیر قانونی طو رپر قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرکے تعمیر کی گئی تھی۔ ہمارا اور دوستوں کا یہ خیال خام ثابت ہوا، یہ دیگ کا ایک دانہ ہے، یہاں تو پوری دیگ دیکھنا ہوگی، خصوصی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play