ہمارے اردگرد ہونے والی بہت سی چیزیں غیر محسوس طریقے سے اتنی تیزی سے بدلی ہیں کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو پایا۔ ہماری روایات، اقدار، لباس،کھانا پینا، میل ملاپ اور رکھ رکھاؤ نے بہت کم عرصے میں اپنا چہرہ بدلا ہے اور اب ہم اسے ہی حقیقی تصویر سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ میڈیا کی برق رفتاری نے یہ سب کام سلو پوائزنگ کی صورت کیا اور اس کے لئے لوگ بھی ہمارے اپنے ہی استعمال کئے گئے۔ بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں کے پنجے ہمارے گلے تک آ پہنچے اور ہم نے اسے بخوشی قبول بھی کرلیا۔ مثال کے طور پر گرمیوں کے موسم میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ مشروبات جو ہماری روایاتی مہمان داری اور صحت و فرحت بخشی کی علامت تھے ان کی جگہ ان ڈرنکس نے لے لی جو مضر صحت بھی ہیں اور غیر منفعت بخش بھی۔ آج کہیں آپ کو شکر میں گھلے ہوئے ستو، لیموں کا رس ملا پانی، خاص گاجروں کی رنگ برنگی کانجی، املی آلو بخارے کا شربت خال خال ہی دکھائی دے گا اور اگر ہے بھی تو اس کو نوش جاں کرنے والے پرانے لوگ ہی دکھائی دیں گے۔ نئی نسل کو ان چیزوں سے اب کوئی سروکار نہیں رہا۔ انہیں ایک عرصے سے دکھایا جا رہا ہے کہ انرجی ڈرنک پینے سے آپ کے اندر توانائی کا ایک جادوئی کرنٹ بھر جاتا ہے، فلاں ڈرنک پینے سے آپ ناممکن کام بھی جھٹ پٹ کر دیتے ہیں، فلاں کمپنی کی ڈرنک پینے سے صنف مخالف کے غول کے غول آپ کی طرف امڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے سب سے مقبول کھیل کرکٹ کو ان مشروب کمپنیوں نے بطور آلہ کار استعمال کیا۔ ہمارا کوئی بھی کپتان اور معروف کرکٹر ایسا نہیں ہے، جس نے ان کے اشتہار میں اپنی شخصیت کے سحر سے نوجوانوں کو اس کی طرف مائل نہ کیا ہو اور اس کی جھلکیاں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ کمپنیاں ان کھیلوں کی سب سے بڑی سپانسر بھی ہوتی اور کھیل کے دوران ان کے ٹیگز کھلاڑیوں کے سینوں پر بھی آویزاں ہوتے ہیں اور وقفہ کے دوران یہی ذہنوں کو گرفت میں لئے رکھتے ہیں۔اب آپ اپنے بچوں کو لاکھ دیسی اور قومی مشروبات کے فوائد بیان کرتے رہیں لیکن چھوٹے بچوں سے لیکر نوجوانوں تک ہر کسی کے ہاتھ میں یہی ڈرنکس دکھائی دیں گے۔ کھانے کی بات کریں تو اب کی نوجوان نسل اور بچے بہت تیزی سے برگر، شوارما اور پیزے کے مکمل عادی ہو چکے ہیں۔ان میں ڈالی جانے والی سوسز اب ان کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکی ہیں۔ دیسی گھی کے پراٹھے اور گھر میں پکے ہوئے روایتی کھانے کھلانا والدین کے لیے کار دشوار ہو کر رہ گیا ہے۔ شہر بھر بلکہ ملک بھر کے بڑے بڑے ہورڈنگز پر آپ کو غیر ملکی کمپنیوں کے یہی برگر اور پیزے جگمگاتے دکھائی دیں گے، جس کی حیرت انگیز ڈیلز ہر وقت بچوں کے ذہنوں پر دستک دیتی رہتی ہیں۔ والدین ان غیر صحت بخش خوراک کو بچوں کے لئے خریدنے اور کھلانے پر مجبور ہیں کہ اس کے بغیر اب گزارا ہی نہیں رہا۔اسی سبب نوجوانوں کی نئی اور خاص قسم کے لئے اب برگر بچے کی اصطلاح بھی استعمال ہونے لگی ہے۔ ان بدلتی روایات کا تیسرا بڑا پہلو میک اپ انڈسٹری ہے، جس نے اب یہ بات ہماری نسلوں کے ذہنوں میں ایسی پختہ کر دی ہے کہ خوبصورت دکھائی دینا ہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے اور یہ ان کی پراڈکٹ استعمال کئے بغیر حاصل ہی نہیں کی جا سکتی۔ رنگ گورا کرنے کی کریموں کے اشتہار اور خود کو جاذبِ نظر دکھانے کی دیگر پراڈکٹس کے ذریعے، جس طرح دوسری صنف کو بے خود ہوتے دکھایا جاتا ہے،اس سے یہ ہی لگتا ہے کہ یہ منزل اب اسی پراڈکٹ کے ذریعے ہی سر ہو سکتی ہے۔ایک ریسرچ کے مطابق دنیا سے بھوک مٹانے کے لئے ان مالیاتی اداروں میں سے میک اپ انڈسٹری کا ہی صرف 40 فیصد درکار ہے۔ذہن سازی اور اس کو تبدیل کرنے والے امور کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں سے چوتھا اہم حصہ لباس بھی ہے۔ دنیا میں قائم اس انڈسٹری نے ہماری نسلوں کی ذہن سازی اس انداز سے کر دی ہے کہ وہ پھٹے ہوئے لباس تک کو فیشن سمجھ کر پہنتے ہیں۔ ذہنوں کو بدلنے والی یہ قوتیں جو چاہتی ہیں ہماری نسلوں کے تن پر پہنا دیتی ہیں اور اس میں نہ کوئی قدغن لگا سکتا ہے اور نہ ہی نوجوانوں کو اس کے درست نہ ہونے پر قائل کیا جا سکتا ہے۔جوں جوں لائف سٹائل ترقی پذیر ہوتا چلا جاتا ہے لباس بس نام کا ہی رہ جاتا ہے، بلکہ اب تو لباس تقریباً بے لباسی ہی ہو کر رہ گئی ہے۔ لباس کے معاملے میں دینی اقدار تو ایک طرف ہماری نئی نسلیں تو متانت اور سنجیدگی سے بھی کوسوں دور ہو چکی ہیں۔اب لباس کی درستی نہیں،بلکہ اس کی چستی معنی رکھتی ہے۔ ذہنوں کی تبدیلی کے عوامل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، جس نے ہماری تہذیبی شناخت، اخلاقی اقدار اور دینی روایات کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور ہم نے یہ سب کچھ اپنی سامنے ہوتا دیکھا بھی ہے اور اس کے اثرات اور تبدیلی اپنی نئی نسل کے مزاج میں سرائیت ہوتے ہوئے بے بسی سے دیکھ بھی رہے ہیں۔ اس کے لئے لوگ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہی لئے گئے جو ہمیں اپنے لگتے ہیں۔ وہ کھلاڑی ہوں، فنکار ہوں یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہوں سب ان کے آلہئ کار بن کر اپنی روایات کو کچل رہے ہیں۔ ہر زمانہ اپنے ساتھ کچھ تبدیلیاں لاتا ہے، جنہیں قبول کرنا فطری امر ہے لیکن اس قدر نہیں کہ یہ ہمارا سب کچھ ہی بہا کر لے جائے۔

ہمارے پاس پہلے ہی 23 لاکھ ٹن گندم موجودہے:محکہ خوراک پنجاب، کے پی کے حکومت کا مقامی گندم خریدنے کا فیصلہ

QOSHE -   ذہن کیسے بدلے جاتے ہیں؟ - سرور حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  ذہن کیسے بدلے جاتے ہیں؟

42 0
27.04.2024

ہمارے اردگرد ہونے والی بہت سی چیزیں غیر محسوس طریقے سے اتنی تیزی سے بدلی ہیں کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو پایا۔ ہماری روایات، اقدار، لباس،کھانا پینا، میل ملاپ اور رکھ رکھاؤ نے بہت کم عرصے میں اپنا چہرہ بدلا ہے اور اب ہم اسے ہی حقیقی تصویر سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ میڈیا کی برق رفتاری نے یہ سب کام سلو پوائزنگ کی صورت کیا اور اس کے لئے لوگ بھی ہمارے اپنے ہی استعمال کئے گئے۔ بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں کے پنجے ہمارے گلے تک آ پہنچے اور ہم نے اسے بخوشی قبول بھی کرلیا۔ مثال کے طور پر گرمیوں کے موسم میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ مشروبات جو ہماری روایاتی مہمان داری اور صحت و فرحت بخشی کی علامت تھے ان کی جگہ ان ڈرنکس نے لے لی جو مضر صحت بھی ہیں اور غیر منفعت بخش بھی۔ آج کہیں آپ کو شکر میں گھلے ہوئے ستو، لیموں کا رس ملا پانی، خاص گاجروں کی رنگ برنگی کانجی، املی آلو بخارے کا شربت خال خال ہی دکھائی دے گا اور اگر ہے بھی تو اس کو نوش جاں کرنے والے پرانے لوگ ہی دکھائی دیں گے۔ نئی نسل کو ان چیزوں سے اب کوئی سروکار نہیں رہا۔ انہیں ایک عرصے سے دکھایا جا رہا ہے کہ انرجی ڈرنک پینے سے آپ کے اندر توانائی کا ایک جادوئی کرنٹ بھر جاتا ہے، فلاں ڈرنک پینے سے آپ ناممکن کام بھی جھٹ پٹ کر دیتے ہیں، فلاں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play