میرا کالا اے دلدار
خرابی کالے رنگ میں نہ تھی۔کالے دلدار کے لیے تو شاعر نے گوروں کو ہری جھنڈی کروا رکھی تھی۔شاعر کے دماغ پر سیاہ فام محبوب قابض تھا اور مجنوں کے لیے لیلی کا حسن دائمی مقناطیس تھا۔دن اگر چمکدار ہے تو خواب دیکھنے کے لیے رات کالی ہی ہوتی ہے،اس لیے رنگوں کو دوش دینا معاملہ فہمی نہیں، دراصل خرابی اور پھر بے تحاشا خرابی کا باعث کالی بھیڑیں تھیں۔ جن کا رنگ ہی نہیں دل بھی کالک زدہ تھا اس کالک پر ستارے ٹانگنے کے لیے کتنے ہی فالج زدہ دماغ دھڑا دھڑ سٹیکر چپکا رہے تھے جو کبھی بھی delete نہیں کیے جا سکتے تھے۔کالی بھیڑوں کو پیر وقت ثابت کرنے کے لیے فدائین ہاتھ لہرا رہے تھے اور دفاعی مورچوں سے چپکے خود کو مجاہد وقت کا درجہ دے کر ایسی اسناد ایشو کروا چکے تھے جو معتبر تھیں اور انھیں کسی ادارے سے verification کی قطعی ضرورت نہ تھی۔خدا جانتا ہے کہ یہ جہاد کی کون سی قسم تھی جو جھوٹی قسمیں کھا کر بھی ہر طرف پھلتی پھیلتی جا رہی تھی اور یہ عشق کا کون سا درجہ تھا جس میں آنکھ اندھی عقیدت کے تحت کبھی کھلنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور امید عزت نفس کو تیاگ کر دامن پھیلائے خاک نشیں رہتی تھی۔
دراصل کالی بھیڑوں نے آپس میں ایکا کر لیا تھا کہ کالے کو سفید کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔اہمیت اس بات کی ہے کہ فی زمانہ کتنے لوگ سیاہ دل کے ہاتھ میں سفید تسبیح کے مطیع و پیروکار ہیں۔ سو اب سفید کہنا اور سمجھنا تقاضائے وقت بلکہ........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website