لندن میں رہتے ہوئے جب کبھی بے تکلف دوست اور نامور اخبار نویس ہمراز احسن سے کچھ چھپانے کی کوشش کی، ایک ہی جملہ سُننے کو مِلا: ”چلیں پوری بات نہ سہی، خبر کا اِنٹرو تو بتا دیں۔“ شاہ جی، اب کے اِنٹرو میرے اور آپ کے دوست طاہر اکرام کی رحلت ہے جو گزشتہ اتوار علی الصبح ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں حدودِ وقت سے آگے نکل گئے۔ مگر کیوں اور کیسے؟ بس جی، ہفتہ کو روٹین چیک اپ کے لیے گئے ۔ وہیِں سے اچانک سی سی یو میں جانے کی اطلاع اہلیہ نے فون پر اپنی خالہ زاد اور طاہر کی بہن ڈاکٹر نبیلہ کو دی۔ مَیں نے کہا ”بیگم، طاہر کی کوئی میڈیکل ہسٹری ہے نہ ہائی بلڈ پریشر، کوئی خطرہ نہیں۔ “ گھنٹی پھر بجی کہ سنٹرل لائن پروسیجر ہو رہا ہے۔ گوگل کِیا تو لکھا تھا ’سنٹرل وینس کیتھیٹر‘ یعنی خطرہ، شدید خطرہ۔ رات ڈھلتے ہی ثمرہ سے کہہ دیا گیا کہ شوہر سے الوداعی ملاقات کر لیں۔

ایئرپورٹس پر ججز اور ان کی بیگمات کو تلاشی سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا

یہ بم ملائشیا میں پھٹا مگر لاہور اور اسلام آباد والوں کے خالی پن کا تذبذب بھی کم جاں لیوا نہیں تھا۔ نبیلہ کی سات سال چھوٹے بھائی کو گود میں اُٹھائے پھرنے کی یادیں، راولپنڈی کی گوالمنڈی میں جنگ اخبار کے قریب بیری والا گھر، طاہر کے ننھے مُنے پالتو جانور، چھوٹی چھوٹی ضدیں اور کار سے منہ باہر کر کے زور کا نعرہ کہ ”لوگو میرے ابو نے روزہ نہیں رکھا، یہ میرا گلاب جامن کھا گئے ہیں۔“ پھر یہ کہ وہ تو بھتیجی کی شادی کی خاطر سنگا پور میں اپنی نیوز ایجنسی سے چھٹی لے کر اگلے ہفتے یہاں پہنچنے والے تھے، ویک اینڈ پر کوالالمپور کیوں جانا پڑ گیا؟ میری بیگم فوری طور پر سنگاپور جانے کے لیے بے تاب ہوگئیں۔ پر پتا نہیں تھا کہ شادی شدہ بیٹی زوہا اور بیٹا زوہیب کیا فیصلہ کریں۔ ذاتی بے چینی کم کرنے کے لیے خود مَیں نے وہی حرکت کی جو منٹو کی وفات پر اُن کے بھانجے حامد جلال نے کی تھی۔

پکڑ دھکڑ بند کر کے لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے،الیکشن لڑنے کے لئے قانونی حکمت عملی تیار کر لی: پرویز الٰہی

معروف مورخ عائشہ جلال کے والد اور قریبی دوستوں کے لیے لالہ حامد، جو دو بہنوں صفیہ اور ذکیہ کے ناتے سے منٹو کے ہم زلف بھی ٹھہرے ،18 جنوری 1955 ءکی صبح پاک انڈیا کرکٹ ٹیسٹ کے پہلے دن ریڈیو کمنٹیٹر کے طور پر بہاولپور میں تھے۔ اطلاع مِلتے ہی لحظے بھر کو رواں تبصرہ روکا اور مائیکروفون پر دنیا کو کہانی کار سعادت حسن منٹو کے دنیا سے چلے جانے کی خبر سنا کر لاہور روانہ ہو گئے۔ بعد ازاں اُن کی انگریزی تحریر ’منٹو ماموں‘ کے نام سے اردو کے لافانی شخصی خاکوں میں شمار ہوئی۔ مَیں نے بھی اُس جاں گسل وقفے میں جب طاہر کا ماضی و مستقبل کرکٹ کھیل رہے تھے، ایک مختصر سی خبر ’فیس بُک‘ پر ڈال دی۔ مقصد یہ بھی تھا کہ ٹی وی چینل، آن لائن ادارے اور سوشل میڈیا طاہر اکرام کی زندگی اور پیشہ ورانہ حقائق سے وہ کچھ نہ کریں جسے وطنِ عزیز میں اب غلطی تصور نہیں کیا جاتا۔

گیس لیک ہونے سے ہیٹر میں آگ بھڑک اٹھی، بچی سمیت 4 افراد جھلس گئے

بہرحال ، کاپی پیسٹ تکنیک نے کام دکھایا اور میرے ہمکاروں کو طاہر اکرام کے کوائف کی ترتیب و تدوین میں زیادہ وقت نہ لگا۔ ہاں، استادِ ادب اور صحافی ، ڈاکٹر عاطف خالد بٹ نے نجی چینل سما کے اولین ڈائریکٹر پروگرام اور تھامسن رائٹرز کے سابق سینئر کارسپانڈنٹ طاہر اکرام پر میرے کچے پکے تعزیت نامہ کو منٹوں میں رواں اردو کے قالب میں ڈھال دیا۔ بنیادی معلومات یہی کہ طاہر 27 نومبر 1964ءکو راولپنڈی میں اخبار پاکستان ٹائمز کے اُس وقت کے چیف رپورٹر شیخ اکرام الحق کے ہاں پیدا ہوئے۔ والدہ امتہ الرشید گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں عربی کی پروفیسر تھیں۔ طاہر کی ابتدائی تعلیم سینٹ میری اکیڈمی، مری روڈ، اور اسلام آباد کالج فار بوائز میں ہوئی۔ 1983 ءمیں گورڈن کالج سے بی اے کر کے پی پی آئی سے صحافتی کیریر کی ابتدا کی اور پھر روزنامہ نیشن اور فرنٹئیر پوسٹ میں رپورٹر رہے۔

مغربی ہواؤں کے اثرات ظاہر ہونا شروع، سردی کی شدت میں مزید اضافے کا امکان

رواں صدی شروع ہوئی تو بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے اسلام آباد بیورو سے طاہر اکرام کی وابستگی کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہی وہ دس سالہ دَور ہے جب اُنہیں بھرپور اقتصادی رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری کا موقع مِلا اور گاہے گاہے یہ سیکھنے کا بھی کہ متنوع اوصاف اور الگ الگ دلچسپیوں کی حامل صحافتی ٹیم کے سربراہ کو کیا کچھ جاننا اور کیا کچھ کرنا چاہیے۔ ایک لحاظ سے یہ تجربہ طاہر کی کراچی منتقلی کا پیش خیمہ بنا جہاں پرنٹ سے براڈ کاسٹ جرنلزم کو مراجعت کے عمل میں انہوں نے پہلے سی این بی سی پاکستان میں ڈائریکٹر پروگرام اور پھر 2007 ءمیں نئے ٹی وی چینل سما کے قیام پر اِسی حیثیت میں کام کیا اور اچھی نیوز ججمنٹ، معاملہ فہمی اور انسان دوستی کی داد پائی۔ سال بھر ہوا تھا کہ وہ سما کو خیرباد کہہ کر کیمیائی صنعت کے خبر رساں ادارے آئی سی آئی ایس کے نیوز ایڈیٹر (ایشیا) کے طور پر سنگا پور چلے گئے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

یہ باتیں اُس وقت کتابی کتابی سی لگیں جب میّت پیر اور منگل کی درمیانی شب اسلام آباد میں طاہر کے بھائی ثاقب فاروق کے گھر پہنچ گئی۔ ثمرہ طاہر، بیٹی ضحی اور اُن کے شوہر سعد ہمراہ تھے۔ ساتھ ہی بیٹا زوہیب جسے اُسی روز کرسمس کی چھٹیاں گزارنے سنگا پور میں والدین کے گھر میں قدم رکھ کر یہ صدمہ سہنا پڑا کہ زمینی حقائق انسانی ارادوں کو کِس طرح کُچل دیتے ہیں۔ ایک ہمراہی کراچی کے مقبول صحافی اقبال جعفری مرحوم کے صاحبزادے حسن بھی تھے جنہوں نے ملائشیا کے اسپتال سے اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان تک دوستی کا حق ادا کیا۔ یہ بھی پتا چل گیا کہ بظاہر اچھی صحت کے مالک طاہر نے بھتیجی ناعمہ کی شادی پر پاکستان روانگی سے پہلے کھانسی کے پیشِ نظر طبی معائنے کا سوچا اور سنگا پور میں ڈاکٹر سے جلد اپائنٹمنٹ نہ مِلنے پر ہنستے کھیلتے کوالالمپور چلے گئے اور وہاں سے خدا معلوم کہاں جا پہنچے۔

شادی سے واپس جانیوالی فیملی پر فائرنگ،ایک خاتون کو حملہ آور نے گاڑی سے باہر نکال کر ٹھوکریں ماریں، پھر تاک تاک کر گولیاں چلائیں

گھر وں میں صفِ ماتم بچھتے ہی ماحو ل کی غمناکی ، دور و نزدیک سے عزیزوں کی آمد و رفت ، کرسیوں، قناتوں اور فون کالوں کی افراتفری، یہ سب کچھ عجیب ترتیب و تناسب سے آپس میں گھُل مِل جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اِمکانی بدنظی کو قابو میں رکھنے کے لیے اہلِ خانہ نے فرائض آپس میں بانٹ لیے ، اگرچہ دباﺅ پھر بھی اُن بیٹیوں پہ رہا جو ڈھائی سال پہلے کوویڈ کی لہر میں ماں کی شفقت سے محروم ہوئیں۔ صبح چار بجے سے میّت کے پاس تنہا بیٹھنے کے لیے مَیں نے خود کو پیش کیا۔ اِسی تنہائی میں جب رات اور دن گلے مِلے تو برادرِ نسبتی ، قریبی دوست اور گورڈن کالج میں ایک گونہ شاگرد ’طاہر اکرام کے لیے ایک نظم ‘ میرے ذہن کے افق پر پھر سے طلوع ہونے لگی:

صبا کے سبز خطے سے

سنہرے موسموں کی آرزو لے کر

دیارِ جاں میں کیوں آیا

وہ جس کی آنکھ چمکیلے دنوں کا کھوج دیتی ہے

جہاں رنگوں کی دھُن میں آشنا منظر تحیر کے

کھُلی خواہش کے پانی میں

ابھرتے، تیرتے ہیں، ڈوب جاتے ہیں

وہ مجھ سے پوچھتا ہے

سینکڑوں اسرار جینے اور مرنے کے

نظر کا روشنی سے رابطہ کیا ہے

لہو کو چاندنی سے کیا تعلق ہے

فضا کی گود میں دم توڑتی قوسِ قزح

قوسِ قزح کیوں ہے

بچھڑنا، یاد رکھنا بھول جانا، کِس کو کہتے ہیں

متاعِ ہستیءبے خانماں کیا ہے

زمیں کیا ہے، زماں کیا ہے

مگر مَیں لفظ گر ہوں کیسے سمجھاﺅں

کہ میرے تجربے کی وسعتوں میں بھی

صبا کے سبز خطے سے

مرے سُکھ کی قلمرو تک

تحیر کا علاقہ ہے

جہاں نیلے گھروندوں سے

سوالوں کے پرندے مائلِ پرواز رہتے ہیں

گماں کی سرزمینوں کو

صبا کے سبز خطے کو

نظر کے بادبانوں سے کھُلی خواہش کے پانی تک

پرندے حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ ہیں

پرندے آگہی کا استعارہ ہیں

(جاری ہے)

QOSHE -    حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (1)  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (1) 

4 0
17.12.2023

لندن میں رہتے ہوئے جب کبھی بے تکلف دوست اور نامور اخبار نویس ہمراز احسن سے کچھ چھپانے کی کوشش کی، ایک ہی جملہ سُننے کو مِلا: ”چلیں پوری بات نہ سہی، خبر کا اِنٹرو تو بتا دیں۔“ شاہ جی، اب کے اِنٹرو میرے اور آپ کے دوست طاہر اکرام کی رحلت ہے جو گزشتہ اتوار علی الصبح ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں حدودِ وقت سے آگے نکل گئے۔ مگر کیوں اور کیسے؟ بس جی، ہفتہ کو روٹین چیک اپ کے لیے گئے ۔ وہیِں سے اچانک سی سی یو میں جانے کی اطلاع اہلیہ نے فون پر اپنی خالہ زاد اور طاہر کی بہن ڈاکٹر نبیلہ کو دی۔ مَیں نے کہا ”بیگم، طاہر کی کوئی میڈیکل ہسٹری ہے نہ ہائی بلڈ پریشر، کوئی خطرہ نہیں۔ “ گھنٹی پھر بجی کہ سنٹرل لائن پروسیجر ہو رہا ہے۔ گوگل کِیا تو لکھا تھا ’سنٹرل وینس کیتھیٹر‘ یعنی خطرہ، شدید خطرہ۔ رات ڈھلتے ہی ثمرہ سے کہہ دیا گیا کہ شوہر سے الوداعی ملاقات کر لیں۔

ایئرپورٹس پر ججز اور ان کی بیگمات کو تلاشی سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا

یہ بم ملائشیا میں پھٹا مگر لاہور اور اسلام آباد والوں کے خالی پن کا تذبذب بھی کم جاں لیوا نہیں تھا۔ نبیلہ کی سات سال چھوٹے بھائی کو گود میں اُٹھائے پھرنے کی یادیں، راولپنڈی کی گوالمنڈی میں جنگ اخبار کے قریب بیری والا گھر، طاہر کے ننھے مُنے پالتو جانور، چھوٹی چھوٹی ضدیں اور کار سے منہ باہر کر کے زور کا نعرہ کہ ”لوگو میرے ابو نے روزہ نہیں رکھا، یہ میرا گلاب جامن کھا گئے ہیں۔“ پھر یہ کہ وہ تو بھتیجی کی شادی کی خاطر سنگا پور میں اپنی نیوز ایجنسی سے چھٹی لے کر اگلے ہفتے یہاں پہنچنے والے تھے، ویک اینڈ پر کوالالمپور کیوں جانا پڑ گیا؟ میری بیگم فوری طور پر سنگاپور جانے کے لیے بے تاب ہوگئیں۔ پر پتا نہیں تھا کہ شادی شدہ بیٹی زوہا اور بیٹا زوہیب کیا فیصلہ کریں۔ ذاتی بے چینی کم کرنے کے لیے خود مَیں نے وہی حرکت کی جو منٹو کی وفات پر اُن کے بھانجے حامد جلال نے کی تھی۔

پکڑ دھکڑ بند کر کے لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے،الیکشن........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play