صوفی صاحب نے تعلیم بالغاں کے لیے جریدہ ”دوست“ کے نام سے نکالا جو اِنہی کی ادارت میں خاصا کامیاب رہا۔ گورنمنٹ کالج میں ادیب فاضل کی شام کی کلاسیں صوفی صاحب نے ہی شروع کروائیں۔

صوفی صاحب جب نیوہوسٹل گورنمنٹ کالج منتقل ہوئے تو وہاں پطرس بخاری صاحب بھی آتے جو اس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور صوفی صاحب کے دوست بھی تھے۔ یہ علمی و ادبی حلقہ ”نیازمندانِ لاہور“ کے نام سے مشہور ہے۔ جن میں پطرس بخاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، عبدالمجیدسالک، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، کرنل مجید ملک، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے۔ گورنمنٹ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی صاحب سنت نگر کی حویلی منتقل ہوئے اور پھر 1964 سے سمن آباد رہائش پذیر رہے، جہاں ادبی مجالس کا سلسلہ جاری و ساری رہا اور ان مجالس میں اُستاد دامن، احسان دانش، فیض احمد فیض، کشور ناہید، یوسف کامران، ڈاکٹر حمیدالدین، عابد علی عابد اور کئی نامور شخصیات سے گیلری بھری رہتی۔

پہلے مرحلے میں وزیر اعظم ن لیگ سے دوسرے میں پیپلزپارٹی سے ہونا چاہیے، شہباز شریف کی تجویز

صوفی صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علمی و ادبی کاموں میں مصروف رہے اور 1956 میں صوفی صاحب خانہئ فرہنگ اسلامیہ جمہوریہ ایران کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ صوفی تبسم صاحب کی شخصیت اور ادارہئ خانہئ فرہنگ ایران کو لازم و ملزوم کہا جائے تو قطعی طور پر غلط نہ ہوگا چونکہ یہ دونوں یعنی شخصیت اور ادارہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ چونکہ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ لاہور میں موجود خانہئ فرہنگ اسلامیہ جمہوریہ ایران کا تصور اور اس کے قیام کی پہلی کاوش خود صوفی تبسم صاحب ہی کی بدولت باروَر ہوئی۔

صوفی صاحب نے درحقیقت مملکت ِ پاکستان و ایران کے رابطوں کی اُستوار کی غرض سے اپنی تمام تر زندگی صرف کردی تھی یہی وجہ ہے کہ بدلتے حالات اور تغیر زمانہ کے نتیجے میں خانہئ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر صاحبان تو بدلتے رہے مگر صوفی تبسم کا خانہئ فرہنگ ایران کے ساتھ تعلق کبھی ماند نہ پڑا۔ پاکستان، ایران دوستی کے سلسلے میں صوفی صاحب کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

صوفی صاحب زندگی بھر مسلسل علمی وادبی کاموں میں مصروف رہے۔ سول سروسز اکیڈیمی، فنانس سروسز اکیڈیمی میں بھی معلّم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ آپ ”لیل و نہار“ کے ایڈیٹر بھی رہے، آپ کی سرپرستی میں مذکورہ ادبی و ثقافتی مجلے نے بلندیوں کو چھُوا۔ وہ مقتدرہ قومی زبان سے بھی وابستہ رہے جہاں پروفیسر سیدوقار عظیم اور صوفی صاحب نے کئی انگلش لفظوں کا ترجمہ اردو میں کیا یہ انتہائی مشکل کام تھا۔ مینارپاکستان کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے بھی آپ کی خدمات یادگار ہیں۔ آپ کو پہلے چیئرمین کرکٹ کنٹرول بورڈ ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔

ٹی 20 کرکٹ،گلین میکس ویل نے روہت شرما کا ریکارڈ برابر کردیا

ریڈیوپاکستان میں مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے نہایت تندہی سے کام کیا۔ 1965کی جنگ میں لکھے گئے صوفی صاحب کے جنگی، قومی ترانے ہمارے جذبوں کو آج بھی تروتازہ رکھے ہوئے ہیں۔ صوفی صاحب نے امیر خسرو، غالب، علامہ اقبال کے فارسی کلام کے منظوم تراجم بھی کیے جو پاکستان کے معروف گلوکاروں نے گائے علاوہ ازیں بہت سے انگلش شعراء کی تخلیقات کے تراجم بھی آپ کی علمی و فکری ساکھ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ابتدائی دور سے ہی صوفی صاحب اُردو، فارسی اور پنجابی تینوں زبانوں میں اپنا لوہا منوا چکے تھے، جس کے نتیجے میں اُنہیں برصغیر میں اُردو، پنجابی اور فارسی میں بے حد پذیرائی ملی اور کئی اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ جس میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس اور تمغہئ امتیاز سے نوازا گیا۔ جبکہ حکومت ایران کی جانب سے نشانِ فضیلت عطا کیا گیا۔ بعداز مرگ 46برسوں کے بعد 23مارچ2023 کو حکومت پاکستان نے صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کی ادبی خدمات پر انہیں نشانِ امتیاز سے نوازا۔

این اے 251، پوسٹل بیلٹ نے امیدوار کی شکست کو جیت میں تبدیل کردیا

گویا بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے لے کر آخری عمر تک ہر ایک کی دِل جوئی کے لیے صوفی صاحب کے کیے ہوئے کام کو ایک حیثیت حاصل رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ جس کی بڑی وجہ اُن کی مثبت سوچ ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے اعلیٰ اقدار سے فیض یاب ہونے کے لیے راستے ہموار کرتی ہے جس کی تصدیق کے لیے اُن کی نظم ”آنے والے شاعر کے نام“ کا ایک بند پیش خدمت ہے

اے میرے دوست

تم تو ابھی اس جہاں میں بھی آئے نہیں ہو

میں نے صورت تمہاری بھی دیکھی نہیں

اور تم مجھ کو پہچانتے جانتے ہی نہیں

نیشنل اوپن پولو چیمپئن شپ برائے قائداعظم گولڈ کپ 2024آج ہوگی

تم مگر میرے اشعار کو دیکھ لینا

شب کی تنہا خموش

آرمیدہ فضا میں

اے میرے دوست

تم تو ابھی اس جہاں میں بھی آئے نہیں ہو

صوفی صاحب ابتدامیں اصغر صہبائی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اُن کے اُستادِ گرامئی قدر اُستاد حکیم فیروزالدین طغرائی نے صوفی صاحب کے ہمیشہ متبسم ہونے کی وجہ سے اُن کا تخلص تبسم تجویز فرمایا اور تب سے اصغرصہبائی ”صوفی تبسم“ کے روپ میں ہم سب کے سامنے ہیں۔ صوفی صاحب کے شاگردوں کے بارے میں تو آپ جان ہی چکے ہیں آئیے میں اُن کے اساتذہ سے بھی آپ کا تعارف کرواتی چلوں۔ اُستاد قاضی حفیظ اللہ، محمد عالم آسی، مولوی احمد دین امرتسری، علامہ محمدحسین عرشی امرتسری، حکیم مفتی غلام رسول اور حکیم فیروزالدین طغرائی اپنے دور کی اہم ترین شخصیات ہیں جن سے وہ فیضیاب ہوتے رہے۔

نیزا آرم ریسلنگ چیمپئن شپ سیزن 2 کا گرینڈ فائنل 24 فروری کوہوگا

صوفی صاحب نے جہاں مختلف دلنواز غزلیں، ملّی نغمے، گیت، پہیلیاں اور مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں وہاں اُنہوں نے بچوں کے لیے بچوں ہی کی زبان میں کئی خوبصورت نظمیں بھی تخلیق کیں۔ صوفی صاحب کو اپنے مزاج کی رنگارنگی اور تنوع کے باعث ہمہ جہت شخصیت کا مالک قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس منفرد خصوصیت کی بنا پر آپ اپنے معاصرین میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ آخر میں یہی کہوں گی کہ ”ٹوٹ بٹوٹ“ سے آج کے دور کے بچوں کی محبت کو صوفی تبسم کی بچوں سے محبتوں اور تخلیقی کاوشوں کا صلہ کہہ سکتے ہیں۔

ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ

باپ تھا اس کا میر سلوٹ

پیتا تھا وہ سوڈا واٹر

کھاتا تھا بادام اخروٹ

صوفی تبسم نے زندگی بھر علم و ادب کی خدمت کی اور آخری دم تک علم کا خزانہ نئی نسل پر لٹاتے رہے۔ آپ کے کلام میں استادانہ فکرو فن، فنی پختگی، زبان پر قدرت اور روایات کا گہرا شعور جیسی خصوصیات نمایاں ہیں۔ وہ اپنے خیالات و جذبات کو بڑی سادگی، صفائی، نغمگی، لطافت و شیرینی کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں جن سے ان کے اسلوبِ بیان میں ایک امتیازی شان پیدا ہوجاتی ہے۔

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقف اضطراب

یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو میری یاد بھول جائے

اللہ کرے کہ تم بھی ایسا نہ کر سکو

صوفی تبسم نے 6ستمبر 1965 کی جنگ میں جو جنگی ترانے لکھے وہ زبانِ زدِعام ہیں۔ انہوں نے یہ ترانے لکھ کر ایک مجاہدانہ کردار ادا کیا جو ان کی حب الوطنی کا بین ثبوت ہے۔

اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے

کیہ لبھنی ایں وچ بازار کُڑے

ایہہ دین ہے میرے داتا دی

نہ اینویں ٹکراں مار کُڑے

QOSHE -               صوفی تبسم ایک ہمہ گیر شخصیت           (2)  - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

              صوفی تبسم ایک ہمہ گیر شخصیت           (2) 

14 9
13.02.2024

صوفی صاحب نے تعلیم بالغاں کے لیے جریدہ ”دوست“ کے نام سے نکالا جو اِنہی کی ادارت میں خاصا کامیاب رہا۔ گورنمنٹ کالج میں ادیب فاضل کی شام کی کلاسیں صوفی صاحب نے ہی شروع کروائیں۔

صوفی صاحب جب نیوہوسٹل گورنمنٹ کالج منتقل ہوئے تو وہاں پطرس بخاری صاحب بھی آتے جو اس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور صوفی صاحب کے دوست بھی تھے۔ یہ علمی و ادبی حلقہ ”نیازمندانِ لاہور“ کے نام سے مشہور ہے۔ جن میں پطرس بخاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، عبدالمجیدسالک، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، کرنل مجید ملک، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے۔ گورنمنٹ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی صاحب سنت نگر کی حویلی منتقل ہوئے اور پھر 1964 سے سمن آباد رہائش پذیر رہے، جہاں ادبی مجالس کا سلسلہ جاری و ساری رہا اور ان مجالس میں اُستاد دامن، احسان دانش، فیض احمد فیض، کشور ناہید، یوسف کامران، ڈاکٹر حمیدالدین، عابد علی عابد اور کئی نامور شخصیات سے گیلری بھری رہتی۔

پہلے مرحلے میں وزیر اعظم ن لیگ سے دوسرے میں پیپلزپارٹی سے ہونا چاہیے، شہباز شریف کی تجویز

صوفی صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علمی و ادبی کاموں میں مصروف رہے اور 1956 میں صوفی صاحب خانہئ فرہنگ اسلامیہ جمہوریہ ایران کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ صوفی تبسم صاحب کی شخصیت اور ادارہئ خانہئ فرہنگ ایران کو لازم و ملزوم کہا جائے تو قطعی طور پر غلط نہ ہوگا چونکہ یہ دونوں یعنی شخصیت اور ادارہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ چونکہ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ لاہور میں موجود خانہئ فرہنگ اسلامیہ جمہوریہ ایران کا تصور اور اس کے قیام کی پہلی کاوش خود صوفی تبسم صاحب ہی کی بدولت باروَر ہوئی۔

صوفی صاحب نے درحقیقت مملکت ِ پاکستان و ایران کے رابطوں کی اُستوار........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play