الیکشن 2024ء منعقد ہو گئے، سیاست و ریاست ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ بہت سے لوگ جیت گئے لیکن کوئی بھی خوش نہیں ہے۔ جشن نہیں منایا جا رہا ہے۔ شکرانے کے سجدے کہیں نہیں کئے جارہے، عام انتخابات کا اعلان ہونے سے انکے انعقاد تک ویسی گہماگہمی دیکھنے میں نہیں آئی تھی جیسی عام طور پر ہوتی تھی نہ تمبو قناتیں، نہ دیگیں کڑاہیاں چڑھیں، نہ چمچے پلیٹیں کھڑ کیں۔ دولت کی ریل پیل کہیں نظر نہ آئی۔ انتخابی مہم دھیمے سروں میں اور بے یقینی کی کیفیت میں ہوئی۔ ایک جماعت کو مکمل طور پر یقین تھا کہ انہیں جتوایا جا رہا ہے مخالفیں بھی ایسا ہی کہہ رہے تھے کہ ایک بار پھر الیکشن کی بجائے سلیکشن ہونے جا رہی ہے۔ الیکشن نتا ئج آنے سے پہلے تک، پوری انتخابی مہم کے دوران اور مہم کی شروعات سے قبل بھی سلیکشن کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا تھا ویسے الیکشن کی بجائے سلیکشن کا تاثر تو اس وقت سے پھیلانا شروع کر دیا گیا تھا۔ جب نواز شریف لندن سے واپس آئے تھے اسلام آباد ائیر پورٹ پر جب ان کی بائیو میٹرکس کے لئے وین ایئر پورٹ پر لائی گئی تو باقائدہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ نواز شریف کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اس کے بعد کے بہت سے واقعات نے اس پروپیگنڈے کو تقویت بخشی اور یہ تا ثریختہ ہو گیا کہ الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہونے جارہی ہے اور تاثر کو پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کے بیانیے نے بھی پختہ کیا بلاول بھٹوڈٹ کر نواز شریف کی مبینہ سیلیکشن پر تنقید کرتے رہے ہاں۔ اس پروپیگنڈے اور تاثر کو حقیقت میں بدلنے میں ن لیگی قیادت کے طرز عمل نے بھی حتمی کردار ادا کیا پھس پھسی انتخابی مہم بہت دیر سے شروع کی گئی۔ منشور کمیٹی ایسے بیٹھی کہ جیسے انڈوں پر مرغی اور نتیجہ پھس پھسی رپورٹ جسے پیپلز پارٹی نے اپنے منشور کا چربہ قرار دیا، انتخابی جلسے بھر پور لیکن کسی انقلابی تاثر سے عاری۔ کوئی موثر اور دل کو چھو لینے والا بیانیہ تشکیل نہیں دیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی انتخابی سیاست اور ایک دوسرے پر تنقید کو منافقت اور عوام کو دھوکہ دہی قرار دیا گیا اورعملا ایسا ہی ہوا۔ انتخابی نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ جیل میں قید عمران خان اپنے چاہنے والوں کوگھروں سے باہر نکالنے اور پولنگ سٹیشنوں تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔ سیلیکشن کا بیا نیہ تار تار ہو گیا۔ ن لیگ بارے تاثر بری طرح پٹ گیا۔ انتخابی عمل نے منصوبہ سازوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا پی ٹی آئی نمبرون جماعت بننے میں کامیاب ہوگئی۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے حیران کن کامیابی حاصل کی ایسے لگا کہ عمران خان چھاگیا ہے پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری اور اس نے ثابت کر دیا کہ ووٹرز کی اکثریت مقتدرہ اور اس کے حمایت یافتگان کو پسند نہیں کرتی بلکہ انہیں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے پی ایس ایل کی سکیورٹی سے متعلق اخراجات کی تفصیلات طلب کرلیں

پی ٹی آئی ابھی تک اپنے انتخابی نتائج یا کامیابی اکٹھی نہیں کرپائی، آزاد ابھی تک آزادہی نہیں وہ کٹی پتنگ کی طرح اڑ رہے ہیں انہیں جو چاہے لوٹ لے لیکن عمران خان نے بڑی وضاحت سے کہہ دیا ہے کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم سے بات چیت نہیں ہوگی۔ عمران خان کا بیانیہ بھی یہی رہا ہے کہ دو خانوادوں کی حکومتیں اور مقتدرہ کی سیاست میں مداخلت تمام مسائل کی جڑ ہے ان کی بات شاید درست ہو لیکن وہ خود بھی مقتدرہ کے کندھوں پر سوار ہو کرہی اقتدار میں لائے گئے تھے۔ وہ مقتدرہ کے گیت ہی نہیں ترانے بھی گاتے رہے ہیں۔ انہیں مقتدرہ سے کوئی شکایت نہیں، اگر وہ ان کے ساتھ ہو لیکن جونہی وہ اپنا پلڑہ کسی اور طرف جھکائے تو عمران خان کے لئے ناپسندیدہ قرار پا جاتی ہے۔ عمران خان جب دو صوبوں اور مرکزمیں حکمران تھے انہیں پارلیمان میں اکثریت حاصل تھی تو وہ اس وقت بھی سیاسی نابالغ نظری کے باعث حکومت نہیں چلا سکے اپنی اکثریت کو نہیں منوا سکے اب انہیں مرکز اور دو صوبوں میں جو مینڈیٹ ملا ہے اسے شاید تدبراور سیاسی بردباری سے حکومت میں بدلتے نظر نہیں آرہے، وہ مسلسل مزاحمت اور مقاومت کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آرہے ہیں انہوں نے جسے پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا امیدوار مقرر کیا ہے۔ وہ اور میاں اسلم اقبال: مفروراشتہاری اور ریاست کو مطلوب ملزم ہیں عمران خان نے ایسے ہی اراکین کو میدان میں آگے بڑھا کر ریاست کو چتاونی دی ہے وہ ریاست مقتدرہ کو مکمل طورپر نیوٹرلائزہی نہیں بلکہ شکست خوردگی سے ہمکنار کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ مقتدرہ کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔ ڈھا کا، شیخ مجیب اور الطاف حسین کی باتیں کی جا رہی ہیں پاکستان دشمن قوتیں نئی نسل میں ایسا تاثر پیدا کرنے کی کاوشیں کررہی ہیں کہ جیسے مقتدرہ شکست خوردہ ہونے جارہی ہے جیسا کہ 71ء میں سقوط ڈھاکہ کی شکل میں ہوئی تھی۔ ویسے موجودہ حالات میں کچھ کچھ ایسی مماثلت دیکھنے میں آرہی ہے۔ ہماری ریاست اور حکومت اس وقت ایوب خان کے اقتدار کی شکل میں ایک ہی تھی۔ اگرتلہ سازش کیس ثابت کر دیا گیا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان، انڈین ایجنسیوں کے ساتھ مل کر متحدہ پاکستان کے خلاف سازش کر رہے تھے وہ قید میں تھے ریاستی ملزم نہیں مجرم کی طرح ایوبی حکمرانی کمزورہوتے ہوتے انتہائی کمزور ہو چکی تھی۔

یونان میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت مل گئی

انہوں نے سیاسی استحکام کے لئے سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس طلب کی تاکہ سیاسی انارکی کے خاتمے کی راہیں تلاش کی جا ئیں۔تمام سیاستدانوں نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ شیخ مجیب الرحمان کو بھی آزاد کرکے یہاں کانفرنس میں لایا جائے ایوب خان مجبور ہوئے ریاستی مجرم کورہا کرنا پڑا۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے ایک شخص اور اس کے حواریوں پر ریاستی ملزم ہونے کا الزام ہے بغاوت کے مقدمات قائم ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت اس حوالے سے ریاست کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آرہی ہے سب جماعتیں اپنے اپنے اقتدار کی جنگ لڑرہی ہیں گروہی جماعتی اور خاندانی مفادات کے لئے جوڑ توڑ کر رہی ہیں انہیں اس بات سے قطعا کوئی غرض نہیں ہے کہ ملک وقوم کا کیا بننے جا رہا ہے۔ قومی معیشت ڈیفالٹ کے دھانے پر کھڑی ہے۔ انفرادی عوامی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ عوام کو ایک موہوم سی امید ہو چلی تھی کہ الیکشن 2024ء کے بعد سیاسی استحکام قائم ہو گا اور پھر معاشی معاملات بہتری کی طرف جانے لگیں گے نواز شریف امید کی کرن بن کر ابھرے اور امید کی جا رہی تھی کہ وہ پاکستان کے پسے ہوئے عوام کے لئے نوید مسرت بن سکیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ ن لیگ سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی اور نواز شریف نے حکومت سازی سے اجتناب برتنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہباز شریف اتحادی حکومت سازی میں مشغول ہیں، پی ڈی ایم کی پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت نے شہباز شریف کی سربراہی میں عوام کے 16 ماہ کے دوران کڑاکے نکال دیئے تھے، اس کے بعد عبوری حکومت بھی اتحادی حکومت کے نقش پاء پر چلتے ہوئے ابھی تک عوام کے کڑاکے نکال رہی ہے ویسے کہاجا رہا ہے کہ جتنے کڑاکے تھے سب نکل چکے ہیں، اب عوام سے کچھ نکالنے یا نکلوانے کے لئے کچھ بھی بچا نہیں ہے۔ عوام مکمل طور پر پس چکے ہیں، عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے پی ڈی ایم اور مقتدرہ کے خلاف نفرت کا کھلا اظہار کر دیا ہے، اگر اب بھی حکمرانوں نے عقل و شعور کے ناخن نہ لئے تو انار کی ہمارا مقدر نے بننے جارہی ہے۔

کپل شرما کا نادر علی کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار

QOSHE -          الیکشن 2024اور سیاسی عدم استحکام - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         الیکشن 2024اور سیاسی عدم استحکام

10 0
17.02.2024

الیکشن 2024ء منعقد ہو گئے، سیاست و ریاست ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ بہت سے لوگ جیت گئے لیکن کوئی بھی خوش نہیں ہے۔ جشن نہیں منایا جا رہا ہے۔ شکرانے کے سجدے کہیں نہیں کئے جارہے، عام انتخابات کا اعلان ہونے سے انکے انعقاد تک ویسی گہماگہمی دیکھنے میں نہیں آئی تھی جیسی عام طور پر ہوتی تھی نہ تمبو قناتیں، نہ دیگیں کڑاہیاں چڑھیں، نہ چمچے پلیٹیں کھڑ کیں۔ دولت کی ریل پیل کہیں نظر نہ آئی۔ انتخابی مہم دھیمے سروں میں اور بے یقینی کی کیفیت میں ہوئی۔ ایک جماعت کو مکمل طور پر یقین تھا کہ انہیں جتوایا جا رہا ہے مخالفیں بھی ایسا ہی کہہ رہے تھے کہ ایک بار پھر الیکشن کی بجائے سلیکشن ہونے جا رہی ہے۔ الیکشن نتا ئج آنے سے پہلے تک، پوری انتخابی مہم کے دوران اور مہم کی شروعات سے قبل بھی سلیکشن کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا تھا ویسے الیکشن کی بجائے سلیکشن کا تاثر تو اس وقت سے پھیلانا شروع کر دیا گیا تھا۔ جب نواز شریف لندن سے واپس آئے تھے اسلام آباد ائیر پورٹ پر جب ان کی بائیو میٹرکس کے لئے وین ایئر پورٹ پر لائی گئی تو باقائدہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ نواز شریف کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اس کے بعد کے بہت سے واقعات نے اس پروپیگنڈے کو تقویت بخشی اور یہ تا ثریختہ ہو گیا کہ الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہونے جارہی ہے اور تاثر کو پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کے بیانیے نے بھی پختہ کیا بلاول بھٹوڈٹ کر نواز شریف کی مبینہ سیلیکشن پر تنقید کرتے رہے ہاں۔ اس پروپیگنڈے اور تاثر کو حقیقت میں بدلنے میں ن لیگی قیادت کے طرز عمل نے بھی حتمی کردار ادا کیا پھس پھسی انتخابی مہم بہت دیر سے شروع کی گئی۔ منشور کمیٹی ایسے بیٹھی کہ جیسے انڈوں پر مرغی اور نتیجہ پھس پھسی رپورٹ جسے پیپلز پارٹی نے اپنے منشور کا چربہ قرار دیا، انتخابی جلسے بھر پور لیکن کسی انقلابی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play