تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کے دس برس بعد تک جن پرانی روایات پر بدستور عمل ہوتا رہا اُن میں گورڈن کالج میں کرسمس کی ’کینڈل لائٹ‘ سروس بھی شامل ہے جس میں اکثر طلبہ اور اساتذہ بلا لحاظ ِ مذہب و رنگ و نسل شریک ہو جاتے ۔ پھر بڑے دنوں کی چھٹیوں میں ، جو آج کل تعطیلاتِ سرما کہلاتی ہیں، کالج انتظامیہ اوراسٹوڈنٹس یونین کے باہمی اشتراک سے فائنل ائیر والے طلبہ کی خاطر ہفتے، دو ہفتے کے تفریحی دورے کا اہتمام ہوا کرتا ۔ ٹھیک چالیس سال پہلے پروفیسر اسد علی اور مَیں مرحوم طاہر اکرام کی حمایت یافتہ یونین کا جو دو سو رُکنی وفد لے کر کراچی گئے اُس ٹرین میں ہمارے دو تہائی طالب علم بلا ٹکٹ سفر کر رہے تھے۔ یہ احوال آگے چل کر، ابھی اِتنا ہی کہ طالب علموں کی یہ خوش کاریاں کوئی نئی چیز نہیں۔ ماضی میں تو ہمارے استاد نصراللہ ملک طالب علموں کے ایک ایسے ہی گروہ کے ساتھ گھومتے گھامتے لندن جا پہنچے تھے۔ یہ دوسری بات کہ شیکسپییر ئین انگلش کا ہر حربہ آزما کر بھی ڈوور کی بندرگاہ سے لَوٹا دیے گئے۔

یوکرین کا روس پر جوابی حملہ، 14 افراد ہلاک

میری تدریس کے دنوں میں پروفیسر نصراللہ ملک کے علم و حلم کا ذکر سُن کر، جو جنرل ضیا کے تعلیمی تطہیر کے عمل میں بطور سزا ڈیرہ غازی خان میں متعین ہوئے، طاہر اکرام نے ایک مرتبہ اپنے کچھ ہم جماعتوں کو اُن سے مِلوانے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ اتفاق سے ملک صاحب فیملی سے مِلنے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ یہ اجتماعی ملاقات جناح سُوپر کے لیلی ریستوراں میں ہوئی جسے اسٹوڈنٹس کے زیرِ اثر مَیں بھی ’لائی لا‘ کہنے لگا تھا۔ طاہر کا فون سُن کر مَیں نصراللہ ملک صاحب کو پیشگی اطلاع دیے بغیر واہ کینٹ سے ایک سو سی سی کی سوزوکی کو دوڑاتا ہوا پشاور موڑ پہنچا۔ ڈاکٹر ملک نذیر احمد والی گلی مُڑ کر جونہی گھر کی گھنٹی دبائی، ملک صاحب نے اوپر کی منزل سے جھانکا اور زور کا خیرمقدمی قہقہہ لگایا ” خوش کیِتا ای او ملکا، خوش کِیتا ای۔ “ مَیں نے کہا ”سر، نیچے آ جائیں، جناح سُوپر چلیں گے جہاں گورڈن کالج کے لڑکے آپ سے مِلنا چاہتے ہیں۔“ یہیں مجھ سے ایک اجتہادی غلطی ہوئی۔

وہ حلقہ جہاں سب سے زیادہ کاغذاتِ نامزدگی مستردہوئے

اُس وقت تک چاروں طرف چھائے سیاہ بادلوں کے باوجود بارش شروع نہیں ہوئی تھی، نہ ملاقات کے شوق میں یہ خیال آیا کہ پروفیسر نصر اللہ ملک کی عمر اور سماجی حیثیت موٹر سائیکل سواری سے ذرا آگے کی ہے۔ موٹر بائیک پر بمشکل ایک کلومیٹر گئے ہوں گے کہ بارش نے آن لیا۔ اب اللہ دے اور بندہ لے۔ نصراللہ ملک صاحب گھر پر کرتا شلوار پہنے ہوئے تھے اور مَیں نے جلدی میں اُسی طرح چل نکلنے کی ترغیب دی تھی۔ چند منٹ بعد ’لائی لا‘ کے فیشن ایبل ما حول میں جو داخل ہوئے ہیں تو میری بھیگی ہوئی ترپال نما پینٹ جیکٹ اور ملک صاحب کا بدن سے چپکا ہوا پیرہن دیکھ کر لڑکے ٹھٹھک سے گئے۔ تدریسی جادو گر نے اسی حالت میں پہلے تو پیڈسٹل فین کی طرح سر گھما کر طاہر اکرام سمیت نصف درجن سامعین کو یکے بعد دیگرے اشتیاق سے دیکھا۔ پھر اپنی کیفیت کا اشارہ دے کر خفت کے لیے انگریزی لفظ ’ایمبیریسمنٹ‘ کی تشریح ادبی پیرائے میں کرتے کرتے ذاکرین کی طرح منبر پر چڑھ گئے۔ یہ ایک منفرد لائیو پرفارمنس تھی۔

پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا میں بھی سکولوں کی چھٹیوں میں توسیع

طاہر تو پہلے ہی فریفتہ تھے کہ پروفیسر نصراللہ ملک کا مطالعہ صرف اُن کے تخصیصی مضمون یعنی تاریخ تک محدود نہیں۔ باقی لڑکے بھی یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئے کہ ملک صاحب کو اُتنی ہی دلچسپی روسی، امریکی، جرمن اور فرنچ فِکشن میں بھی ہے۔ ساتھ ہی تہذیبوں کا ٹکراﺅ اور مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ۔ خوب یاد ہے کہ نصراللہ ملک نے ریستوران کو کلاس روم میں بدل کر سب کو یوں قابو کیا کہ اندر کی سانس اندر اور باہر کی باہر۔ بڑا سبب تھا انسان دوستی میں گُندھے ہوئے اُن کے وہ فکری رویے جنہوں نے علمیت کے بیج سے جبلی محبتوں کی کوکھ میں جنم لیا ۔ نصراللہ ملک اور اب طاہر اکرام کے پردہ کر لینے کے درمیان سات سال کا وقفہ ہے۔ پر اُس دن تو مَیں خوفزدہ ہو گیا کہ یہی طالب علم ، جو چند دن میں میری اور پروفیسر اسد علی کی زیرِ قیادت کراچی کے تفریحی دَورے پر جانے والے ہیں،ِ دورانِ سفر دو نوزائیدہ لیکچرروں کے قد کاٹھ کو کہِیں ہمارے دیومالائی استاد کے پیمانے پر پرکھنے کی کوشش نہ کریں۔ پر خدشہ بے بنیاد نہ تھا۔

چاہت فتح علی خان کے کاغذات نامزدگی مسترد ،وجہ کیا بنی ؟ جانیے

چالیس سال ہونے کو ہیں جب جنوری کا سورج نکلنے سے کچھ پہلے پرنسپل عزیز محمود زیدی نے مجھے بُلا بھیجا اور کہا کہ طلبہ کے ساتھ اب کے آپ کو کراچی بھیجنے کا ارادہ ہے۔ عرض کی کہ ڈاکٹرصاحب، میرے ہمکار اسد علی چوہدری کو، جو پچھلے برس کراچی کا کامیاب دورہ کر کے آئے ہیں، اس وزٹ کا بھی نگران مقرر کر دیں اور مجھے اُن کا نائب۔ ڈاکٹر زیدی کی طرح اسد علی بھی ریاضی کے مدرس تھے اور حساب کتاب کے پکے، مگر یہ معاملے کا ایک رُخ ہے۔ دوسرے پہلو کی نشان دہی طاہر اکرام کے جنازے سے فارغ ہو کر عزیز محترم عدنان شبیر نے کی ۔ کہنے لگے کہ وہ طاہر اکرام سے ، جس کی ناوقت رحلت نے دل چھید کر رکھ دیا ہے، کالج میں تھے تو ایک سال سینئر مگر سیاسی طور پر دائیں بائیں بازو کی صف بندی میں اُس کے شدید مخالف۔ عدنان کے اِس انکشاف نے بھی مزا دیا کہ طلبہ کی طرح جن استادوں کو لیفٹسٹ سمجھا جاتا اُن میں آپ بھی شامل ہیں۔ شاید یہی وجہ ہو کہ اسد علی او ر شاہد ملک کو مشترکہ نگرانی پر مامور کرنے پر ڈاکٹر زیدی آسانی سے رضامند ہو گئے تھے۔

سعودی شہری نے غیرملکی ملازمہ کی شادی کرادی، فرنشڈ گھر بھی دیا

عدنان شبیر گورڈن کالج میں بطور طالب علم اول اول پاکستان ٹائمز کے مستند و متحرک صحافی سید شبیر حسین کے صاحبزادے اور ماہرِ طبیعات ڈاکٹر مجاہد کامران کے بھائی کے طور پر جانے گئے جنہیں بحیثیت وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائر ہو جانے پر بھی نجی ادارے ریٹائر نہیں ہونے دے رہے ۔ پر چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آف مارکیٹنگ کے فیلو اور اِسی شعبہ میں ڈاکٹریٹ سے لیس عدنان شبیر کی شہرت اب حسب نسب کے حوالے سے نہیں ، آزمودہ کار استاد اور محقق کے طور پر ہے۔ طاہر اکرام کے چلے جانے پر عدنان نے صرف کالج کی بچگانہ رقابتوں کے تار نہیں چھوئے، اپنے اور طاہر کے گہرے ذاتی مراسم کو بھی گلو گیر لہجے میں یاد کیا۔ یہ اسلام آباد میں آخری رسومات سے فارغ ہونے کے بعد کی گفتگو ہے۔ وگرنہ عدنان کے جذبات تو اُسی وقت لفظوں میں ڈھل گئے تھے جب اُنہوں نے رات گئے سی این بی سی اور سما پاکستان کے اولین پروگرام ڈائریکٹر کے بیرونِ ملک منظر سے غائب ہو جانے کی خبر دیکھی ۔ یہ تھا عدنان کا ٹیکسٹ میسیج:

پاراچنار سے پشاور جانے والی وین پر فائرنگ

”سر شاہد، السلام علیکم۔ آپ نے بہت خوبصورت اور عمدہ طریقے سے طاہر کی زندگی کے اُنسٹھ سالہ سفر کو چند سطروں میں سمیٹا ہے۔۔۔ آج صبح جب ثاقب بھائی نے رندھی ہوئی آواز میں مجھے فون پر بتایا کہ طاہری ( ہم پیار سے اُسے اِسی نام سے پکارتے تھے) چلا گیا ہے تو یقین نہیں آیا۔ ہمارا اور اکرام انکل کا تعلق دہائیوں پر محیط ہے۔ ابا جی اور اکرام انکل پاکستان ٹائمز کے ساتھی تھے اور ہم پنڈی کی گوالمنڈی میں ہمسائے تھے۔ پھر 1978 ءمیں جب ہم اسلام آباد شفٹ ہوئے تو انکل ایک مرتبہ پھر ہمارے پڑوسی بن گئے۔ آنٹی اکرام کے ہاتھ کے پراٹھے اور پکوڑے آج بھی میری اہلیہ اور بچے یاد کرتے ہیں جو وہ گاہے گاہے ہمیں بھجوایا کرتی تھیں۔ اکرام انکل جیسے دھیمے مزاج کی شخصیت میں نے بہت کم دیکھی ہیں ۔ ۔۔ طاہری کی آٹھویں سالگرہ پر مَیں نے اُسے ایک آسمانی رنگ کا چھوٹا سا گھرگِفٹ کیا تھا جو شاید کسی خوبصورت پتھر کا بنا ہوا تھا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ طاہری کو جنت الفردو س میں ایسا ہی نیلاگھر عطا فرمائے۔“

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ تم تو طاہر اکرام سمیت گورڈن کالج کے طلبہ کو لے کر راولپنڈی سے کراچی جانے والے تھے ، اُس کا کیا ہوا؟ جواب ہے کہ ہاں، روانگی ذرا لیٹ ہو گئی۔ ویسے بھی یہ ڈاک گاڑی نہیں، فاسٹ پیسنجر ٹرین ہے جو چھوٹے اسٹیشنوں پر بھی ٹھہر جاتی ہے۔

(جاری ہے)

QOSHE -    حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ   (3)  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ   (3) 

9 4
31.12.2023

تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کے دس برس بعد تک جن پرانی روایات پر بدستور عمل ہوتا رہا اُن میں گورڈن کالج میں کرسمس کی ’کینڈل لائٹ‘ سروس بھی شامل ہے جس میں اکثر طلبہ اور اساتذہ بلا لحاظ ِ مذہب و رنگ و نسل شریک ہو جاتے ۔ پھر بڑے دنوں کی چھٹیوں میں ، جو آج کل تعطیلاتِ سرما کہلاتی ہیں، کالج انتظامیہ اوراسٹوڈنٹس یونین کے باہمی اشتراک سے فائنل ائیر والے طلبہ کی خاطر ہفتے، دو ہفتے کے تفریحی دورے کا اہتمام ہوا کرتا ۔ ٹھیک چالیس سال پہلے پروفیسر اسد علی اور مَیں مرحوم طاہر اکرام کی حمایت یافتہ یونین کا جو دو سو رُکنی وفد لے کر کراچی گئے اُس ٹرین میں ہمارے دو تہائی طالب علم بلا ٹکٹ سفر کر رہے تھے۔ یہ احوال آگے چل کر، ابھی اِتنا ہی کہ طالب علموں کی یہ خوش کاریاں کوئی نئی چیز نہیں۔ ماضی میں تو ہمارے استاد نصراللہ ملک طالب علموں کے ایک ایسے ہی گروہ کے ساتھ گھومتے گھامتے لندن جا پہنچے تھے۔ یہ دوسری بات کہ شیکسپییر ئین انگلش کا ہر حربہ آزما کر بھی ڈوور کی بندرگاہ سے لَوٹا دیے گئے۔

یوکرین کا روس پر جوابی حملہ، 14 افراد ہلاک

میری تدریس کے دنوں میں پروفیسر نصراللہ ملک کے علم و حلم کا ذکر سُن کر، جو جنرل ضیا کے تعلیمی تطہیر کے عمل میں بطور سزا ڈیرہ غازی خان میں متعین ہوئے، طاہر اکرام نے ایک مرتبہ اپنے کچھ ہم جماعتوں کو اُن سے مِلوانے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ اتفاق سے ملک صاحب فیملی سے مِلنے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ یہ اجتماعی ملاقات جناح سُوپر کے لیلی ریستوراں میں ہوئی جسے اسٹوڈنٹس کے زیرِ اثر مَیں بھی ’لائی لا‘ کہنے لگا تھا۔ طاہر کا فون سُن کر مَیں نصراللہ ملک صاحب کو پیشگی اطلاع دیے بغیر واہ کینٹ سے ایک سو سی سی کی سوزوکی کو دوڑاتا ہوا پشاور موڑ پہنچا۔ ڈاکٹر ملک نذیر احمد والی گلی مُڑ کر جونہی گھر کی گھنٹی دبائی، ملک صاحب نے اوپر کی منزل سے جھانکا اور زور کا خیرمقدمی قہقہہ لگایا ” خوش کیِتا ای او ملکا، خوش کِیتا ای۔ “ مَیں نے کہا ”سر، نیچے آ جائیں، جناح سُوپر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play