بھٹو صاحب کا مقدمہ (3)
آئینی ترمیم کے ذریعے دو اہداف حاصل کئے گئے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان ریٹائر نہ ہو پائے، اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار اقبال ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیے گئے۔ کسی بھی اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس کی مدت (TENURE) کو چار سال پر محیط ہونا تھا۔ اگر کوئی صاحب ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جائیں تو بھی وہ چار سال کی مدت پوری کیے بغیر ریٹائر نہیں ہو سکتے تھے،لیکن اگر چیف صاحب کی مدتِ ملازمت باقی ہو اور وہ چار سال کے لیے چیف جسٹس رہ چکے ہوں تو اُنہیں اپنا منصب چھوڑنا پڑنا تھا۔وہ سینئر جج کے طور پر ملازمت جاری رکھ سکتے تھے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان اس ترمیم کے نتیجے میں ریٹائر نہ ہو پائے۔ سینئر ترین جج جسٹس انوار الحق کا راستہ روک لیا گیا، لیکن لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اقبال کا معاملہ مختلف تھا،وہ چار سال پورے کر چکے تھے لیکن ان کا عرصہ ملازمت ختم نہیں ہوا تھا۔ان کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ جس عدالت کے وہ سربراہ رہے ہوں،اس میں ایک جج کے طور پر کام جاری رکھیں۔انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور یوں عہدہ خالی ہو گیا۔اب بلا خوف تردید مولوی مشتاق حسین سینئر ترین جج تھے، ان کی ”تاجپوشی“ یقینی تھی، لیکن اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے ذاتی دوست جسٹس اسلم ریاض حسین پر نگاہِ انتخاب ٹھہری، اور وہ ساتویں نمبر سے پہلے پر لا بٹھائے گئے۔وہ تحریک پاکستان کی ممتاز رہنما بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے صاحبزادے تھے، اور تحریکی حوالے سے یحییٰ بختیار کے ہم دمِ دیرینہ۔مولوی مشتاق حسین کو یہ دوسری چوٹ تھی، جو بھٹو اقتدار نے لگائی تھی۔انہوں نے استعفیٰ تو نہ دیا لیکن رخصت پر چلے گئے،جب تک اسلم ریاض حسین چیف جسٹس رہے، مولوی صاحب نے فرائض نہیں سنبھالے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں مولوی صاحب نے ریلیف دیا تھا، گورنر نواب کالا باغ اور ان کے ”آقا“ فیلڈ مارشل کی سرخ سرخ آنکھوں سے مرعوب ہونے کے بجائے میاں والی اور ساہیوال جیل کے قیدی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website