اگر حافظے پر اعتبار کروں تو مرحوم طاہر اکرام سمیت گورڈن کالج کے کوئی دو سو طلبہ پیسنجر ٹرین میں چھتیس گھنٹے کا سفر کر کے جب کراچی کینٹ اُترے تو جنوری 1983 ءکے پہلے سوموار کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ نمایاں بات دو نو عمر اساتذہ سمیت کُل ہم سفروں کی تعداد نہیں بلکہ یہ پہلو ہے کہ اِن میں سے ٹکٹ، وہ بھی رعایتی، کالج کی ’لوک‘ روایت کی پیروی میں صرف اسّی طلبہ نے خریدے تھے۔ یاد رہے کہ اِس سفرِ کراچی سے کوئی پندرہ سال پہلے ہمارے ہی کالج کا ایک تفریحی دورہ پاک افغان سرحد کے قریب لنڈی کوتل سے واپسی پر راولپنڈی پولی ٹیکنیک کے راستے ایوب مخالف تحریک کا نکتہءآغاز بھی بنا۔ دونوں استادوں نے البتہ باضابطہ ٹکٹ لیے اور ذاتی آرام و سکون کی خاطر فرسٹ کلاس سلیپر کی بُکنگ مَیں نے اپنی جیب سے کرائی ۔ اِس میں دیانتداری کا مصنوعی زعم بھی شامل تھا۔ مگر ہوا کیا؟

مولانا فضل الرحمان اہم ترین دورے پر آج کابل روانہ ہوں گے

ہمیں کالج سے رخصت کرنے کے لیے وائس پرنسپل مطیع اللہ خاں تشریف لائے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر لڑکوں میں سے اسٹوڈنٹس یونین کا نائب صدر اپنی نیم دیہی اردو میں مجھ سے نیا مطالبہ کرنے لگا: ”سر، خاں صاحب سے کہہ کر ہمیں دس ہزار روپے اَور دلا دیں۔“ پیشہ ور ایڈمنسٹریٹر خدا جانے ایسے سوالوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔ مَیں نے تو وائس پرنسپل کے سامنے اُنہی کے لہجے میں واول آوازوں کو گھماتے ہوئے کہا:”بیٹا، مَیں کَیسے کہہ سکتا ہوں اور خاں صاحب کَیسے دلا سکتے ہیں؟“ لڑکا چُپ تو ہو گیا لیکن جونہی پروفیسر مطیع اللہ خاں نے الوداعی خطاب کے لیے ’عزیز طالب علمو‘ کہا ، فضا میں ایک ایسی مسلسل ’اوں‘ گونجنے لگی جو ہونٹ ہلائے بغیر بس کالج کے لڑکے ہی نکال سکتے ہیں۔ اِس پر وائس پرنسپل کے صرف ایک جملے سے ہجوم کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ فرمایا: ”یہ آپ کے حسنِ اخلاق کا بہت اچھا نمونہ ہے۔“

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

حسنِ اخلاق کے مزید مظاہروں سے بچنے کے لیے ریلوے اہلکاروں کے مشورے سے مَیں نے راولپنڈی اسٹیشن پر طلبہ کو ایک نصیحت کی تھی۔ یہی کہ اگر دورانِ سفر بالائی درجہ میں خالی جگہ مِل جائے تو اِس سے عارضی طور پر فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ شرط یہ تھی کہ اگر ایسے مسافروں سے سامنا ہو جنہوں نے پیشگی سیٹیں محفوظ کر رکھی ہوں تو پھر نہایت تمیز سے یہ سہولت فی الفور ختم سمجھیں۔ اِسی طرح یہ ہدایت بھی دی کہ اگر بالفرض یہ لگے کہ کوئی تیسرا شخص زیادتی پر اُتر آیا ہے تو خود کچھ نہ کریں، بس مجھے یا پروفیسر اسد علی صاحب کو آ کر بتا دیں۔ سفر کی پہلی رات خیریت سے گزر گئی۔ اسد علی تو تھے ہی طلبہ کے کمپارٹمنٹس سے ملحقہ ڈبے میں۔ مَیں نے بھی دو مرتبہ جا کر جائزہ لیا۔ طاہر اکرام، یونین والے اور باقی لڑکے خوش گپیوں میں مصروف تھے یا تاش کھیلنے میں۔ کسی بے ہودگی کے آثار دکھائی نہ دیے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی نے 48 گھنٹوں کے لیے سی این جی سٹیشن بند کرنے کا اعلان کردیا

بے ہودگی اگر ہوئی تو خود مجھ سے، مگر اِس میں ارادے کو کوئی دخل نہیں تھا۔ سُست رفتار ٹرین یوں رُک رُک کر چلتی رہی کہ ’کیا لطف جنازہ اُٹھنے کا، ہر گام پہ جب ماتم نہ ہوا۔ ‘ خانیوال پہنچتے پہنچتے دوپہر کا وقت ہو چلا تھا۔ سفر میں روٹی پانی ہر کسی کی اپنی ذمہ داری تھی۔ چنانچہ بہت سی ٹولیاں الگ الگ ڈھابوں پر جا بیٹھیں۔ طاہر اکرام نے ایک اوپن ائر ریستوران کی طرف اشارہ کیا جو جنوری کی دلکش دھوپ میں دعوت ِ طعام دے رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اٹھارہ بِیس دیگر طلبہ بھی آن مِلے۔ چند منٹ میں کھانا آ گیا مگر خورد و نوش کا عمل جا ری تھا کہ یکدم ہارن بجا اور گاڑی چل پڑی۔ افراتفری میں سب نے چھلانگیں لگائیں اور پَل دو پَل میں ڈبوں کے اندر۔ بِل ادا کیے بغیر بھاگ جانا ایک لطیفہ تو تھا لیکن یہ ندامت بھی رہی کہ مَیں نے کھانا کھِلانے والے کا حق مارا ہے۔

رضا ہارون نے پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کردیا

یہ تو ہوئی مالی بے ضابطگی، پولیس مقابلہ سندھ میں داخل ہو جانے پر ہوا۔ مَیں بالائی درجہ کے برتھ پر محوِِ استراحت تھا کہ طاہر اکرام نے آ کر ہِلایا: ”سر، مسافروں کے ساتھ لڑائی ہو گئی ہے اور پولیس نے ستر اسٹوڈنٹس کو گرفتار کر لیا ہے۔“ مجھے گرفتاری اور تحویل میں لیے جانے کا فرق تو معلوم تھا، مگر یہ قانونی نزاکتیں بعد کا مرحلہ ہوتی ہیں۔ اُس وقت تو یہ پنجابی محاورہ درپیش تھا کہ رب نیڑے کہ گھسُن نیڑے۔ ”یہ ستر لڑکے ہیں کہاں؟“ مَیں نے سرا سیمگی پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔ جواب مِلا کہ ریلوے مجسٹریٹ اِسی ٹرین پر سوار ہیں، اُن کے حکم پر لڑکوں کو ایک ڈبے میں بند کر کے تالہ لگا دیا گیا ہے۔ یا الٰہی، مارشل لا کے دَور میں ایم آر ڈی کی تحریک زوروں پہ ہے، بات کہِیں سے کہِیں پہنچ جائے گی۔

کراچی میں تیزاب گردی کا دردناک واقعہ، ماں جاں بحق، بیٹی شدید زخمی

مَیں اُن دنوں ایف ایس سی کو آئرش رائٹر لیڈی گریگری کا ڈرامہ ’رائزنگ آف مُون‘ پڑھا رہا تھا جس میں ایک انقلابی کی گرفتاری پر مامور سکیورٹی اہلکار انسانی معصومیت کے نام پر اُسے رہا کر دیتا ہے۔ سوچا، مجسٹریٹ سے کہوں گا کہ بھائی جان ، بچے تو بچے ہوئے مگر ہم آپ سرکاری ملازم ہیں، تنازعے کو کیوں بڑھائیں؟ خیر، طاہر اور مَیں محتاط انداز میں ڈبہ در ڈبہ پیش قدمی کرکے عدالتی کمپارٹمنٹ میں پہنچے تو تسلی ہوئی کہ کمرہ کافی روشن ہے۔ صاحب بھی دیکھنے میں خرانٹ قسم کے رینکر نہیں تھے۔ مَیں نے اپنا نام اور تدریسی مضمون بتایا۔ نظریں چار ہوئیں اور گورنمنٹ کالج کا اولڈ بوائے نیٹ ورک حق و انصاف کے تقاضوں پر غالب آگیا۔ بالکل اُسی طرح جیسے پنجاب کے ایک بزرگ سیاستداں سائل سے پوچھا کرتے تھے ”اوے جَٹ ایں کہ نئیں؟“ پھر نفی کی صورت میں کہتے ”چل گجرات دا تے ہے ویں ناں!“

"ہم کوئی غلام تو نہیں" عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے گانا لکھنے والا شاعر قتل کر دیا گیا

سائل کہِیں کا ہو، کراچی میں چوتھے دن کلفٹن کے دکانداروں سے جھگڑے میں تھانے کا منہ کِس کِس کو دیکھنا پڑا اور لالو کھیت میں ایم آر ڈی کے جلسے میں ہمیں سیاسی رہنما سمجھ کر ہار پہنائے جانے سے کیا خطرات پیداہوئے؟ کچھ واقعات کا تعلق جامعہءکراچی میں قیام کے دوران طاہر اکرام کے بیمار پڑنے سے ہے جس سے میری واپسی بھی چند روز کے لیے موخر ہو گئی تھی۔ فی الوقت تو کراچی اُتر کر یونیورسٹی پہنچنے کے لیے ہمیں چار مسافر بسیں درکار ہیں۔ چار کا عدد کم لگے تو واضح کر دوں کہ نقل و حرکت کا انتظام اُس قبائلی گروپ کے سپرد ہے جس کے نزدیک مسافر کو بس کے اندر نشست اُسی وقت سنبھالنی چاہیے جب چھت پر بیٹھنے کی جگہ نہ مِل سکے۔ انتظار طویل ہو جانے پر مَیں نے لڑکوں کو ہنسانے کے لیے کینٹ اسٹیشن کے باہر گونگا فقیر بن کر سڑسٹھ روپے کمانے کا پریکٹکل بھی کر دکھایا۔

اب طاہر اکرام کی یاد میں کراچی کا اوقات نامہ دہراﺅں تو پِیر کا باقی دن ہاسٹل کی صفائی، بستر بچھانے اور سامان لگوانے میں گزرا۔ منگل، بدھ اور جمعہ کے ایام پیرا ڈائز پوائنٹ، ہاکس بے اور منوڑہ کی سیر کے لیے ترتیب وار مخصوص تھے مگر یہ ترتیب نصف صدی میں دائیں بائیں ہو گئی ہے۔ کراچی سے واپسی جنوری کے پہلے اتوار کو طے تھی،لہٰذا جمعرات اور ہفتہ، یہ دو دن طلبہ کو انفراد ی سرگرمیوں کے ِمل گئے۔ لَو جی، ہُن جمعرات دی شام نوں کیِہہ کم پیندا اے؟ اُس شام آج کل کے فتنہ پرور ٹی وی چینل ہوتے تو ضرور کہتے : ’کلفٹن میں پنجابی طلبہ اور پٹھان دکانداروں میں تصادم، گورڈن کالج کے لڑکوں پر سامان چوری کرنے کا الزام، ڈیڑھ درجن طلبہ زیرِ حراست‘۔ پروفیسر اسد علی اور میرے لیے یہ خبر مستقبل کے صحافی طاہر اکرام نے بریک کی۔ تھانہ، کچہری، فوجی عدالت ۔۔۔ میرے تو ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔

(جاری ہے)

QOSHE -      حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (4)  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (4) 

12 9
07.01.2024

اگر حافظے پر اعتبار کروں تو مرحوم طاہر اکرام سمیت گورڈن کالج کے کوئی دو سو طلبہ پیسنجر ٹرین میں چھتیس گھنٹے کا سفر کر کے جب کراچی کینٹ اُترے تو جنوری 1983 ءکے پہلے سوموار کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ نمایاں بات دو نو عمر اساتذہ سمیت کُل ہم سفروں کی تعداد نہیں بلکہ یہ پہلو ہے کہ اِن میں سے ٹکٹ، وہ بھی رعایتی، کالج کی ’لوک‘ روایت کی پیروی میں صرف اسّی طلبہ نے خریدے تھے۔ یاد رہے کہ اِس سفرِ کراچی سے کوئی پندرہ سال پہلے ہمارے ہی کالج کا ایک تفریحی دورہ پاک افغان سرحد کے قریب لنڈی کوتل سے واپسی پر راولپنڈی پولی ٹیکنیک کے راستے ایوب مخالف تحریک کا نکتہءآغاز بھی بنا۔ دونوں استادوں نے البتہ باضابطہ ٹکٹ لیے اور ذاتی آرام و سکون کی خاطر فرسٹ کلاس سلیپر کی بُکنگ مَیں نے اپنی جیب سے کرائی ۔ اِس میں دیانتداری کا مصنوعی زعم بھی شامل تھا۔ مگر ہوا کیا؟

مولانا فضل الرحمان اہم ترین دورے پر آج کابل روانہ ہوں گے

ہمیں کالج سے رخصت کرنے کے لیے وائس پرنسپل مطیع اللہ خاں تشریف لائے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر لڑکوں میں سے اسٹوڈنٹس یونین کا نائب صدر اپنی نیم دیہی اردو میں مجھ سے نیا مطالبہ کرنے لگا: ”سر، خاں صاحب سے کہہ کر ہمیں دس ہزار روپے اَور دلا دیں۔“ پیشہ ور ایڈمنسٹریٹر خدا جانے ایسے سوالوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔ مَیں نے تو وائس پرنسپل کے سامنے اُنہی کے لہجے میں واول آوازوں کو گھماتے ہوئے کہا:”بیٹا، مَیں کَیسے کہہ سکتا ہوں اور خاں صاحب کَیسے دلا سکتے ہیں؟“ لڑکا چُپ تو ہو گیا لیکن جونہی پروفیسر مطیع اللہ خاں نے الوداعی خطاب کے لیے ’عزیز طالب علمو‘ کہا ، فضا میں ایک ایسی مسلسل ’اوں‘ گونجنے لگی جو ہونٹ ہلائے بغیر بس کالج کے لڑکے ہی نکال سکتے ہیں۔ اِس پر وائس پرنسپل کے صرف ایک جملے سے ہجوم کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ فرمایا: ”یہ آپ کے حسنِ اخلاق کا بہت اچھا نمونہ ہے۔“

ستاروں کی روشنی میں آپ کا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play