صحافت کی تدریس میں کون، کب اور کیا کے علاوہ خبر کی تعریف کے لازمی اجزا یہی ہیں کہ کہاں، کیوں اور کیسے؟ جنوری 1983 ء میں گورڈن کالج کے دو سو طلبہ کراچی کے تفریحی دورے پر تھے کہ اُن میں سے اُنیس ساحلِ سمندر پہ دکانداروں سے جھگڑنے کے الزام میں حوالات جا پہنچے۔ طے شدہ پروگرام سے ہٹ کر اُس شام مجھ سمیت دونوں نگران اساتذہ نے سب کو نجی طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ بہرحال، اِسے مستقبل میں رائٹر نیوز ایجنسی کے نامہ نگار طاہر اکرام کی مہارت کا پیشگی اشارہ سمجھنا چاہیے کہ تھانہ کلفٹن سے ایک ہم جماعت کا ٹیلی فون سُن کر یہ خبر طاہر مرحوم ہی نے بریک کی۔ اب دونوں استاد کیا کریں؟ اِس لیے کہ راولپنڈی سے کراچی لانے والی ٹرین پر بلاٹکٹ اسٹوڈنٹس کے خلاف ریلوے مجسٹریٹ کے چھاپے کے بعد یہ دوسرا ’پُلس مقابلہ‘ ہے۔

’اب تحریک انصاف کا نام تو رہے گا لیکن ۔ ۔ ۔‘ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا موقف بھی آگیا

خوب یاد ہے کہ جامعہء کراچی کے ہاسٹل میں ہمارے طالب علم گراؤنڈ فلور پر ڈورمیٹری نما طویل و عریض کمروں میں بچھے فرشی بستروں پر ڈٹے ہوئے تھے۔ پروفیسر اسد علی اور میرے لیے البتہ شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے مہربان طلبہ نے اپنے طور پر بالائی منزل پر دو کیوبیکل خالی کر دیے اور بااصرار وہِیں ٹھہرایا۔ طاہر اکرام کی زبانی بریکنگ نیوز سُنی تو ذہن ماؤف ہو گیا اور حافظے میں خاندان کے ایک سیالکوٹی بزرگ کی تشبیہہ ابھری کہ ”اپنی مرضی نال مَیں کچہری کدے نئیں گیا، اتے تھانہ ہور وی دُور اے۔“

بلے کے نشان سے متعلق فیصلے پر پیپلزپارٹی کا ردعمل بھی آگیا

صدمے کی حالت میں بسا اوقات آدمی کا تصور اُس کے ساتھ عجیب عجیب کھیل کھیلتا ہے۔ ایک دم یوں لگا کہ میرے خاندانی بزرگ کی تصویر ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے عکس میں بدل گئی ہے، جن سے اُسی صبح فلاسفی ڈپارٹمنٹ میں طویل وقفے سے تجدید ِملاقات ہوئی تھی۔

مَیں نے طاہر کو ساتھ لیا اور ڈاکٹر ظفر عارف کے گھر کی طرف چل پڑا جو ہماری قیام گاہ سے کوئی بیس منٹ کا راستہ تھا۔ یہ بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر صاحب اب سے ٹھیک چھ سال پہلے دنیا سے گئے لیکن جب تک زندہ رہے، ہزار اتار چڑھاؤ کے باوجود کسی بھی مرحلے پر اُنہیں حیرت زدہ کم ہی دیکھا۔ لندن میں ارلز کورٹ کے بارکسٹن گارڈن میں واقع قائد اعظم ہاسٹل میں ”کیوں صاحب، جگہ مِل جائے گی؟“ والی اولین ملاقات سے لے کر، جب ہم دونوں نے ایک رات میں بائیس سگار نوشِ جاں کیے، الیاس گوٹھ میں قدرے پُراسرار انداز میں بے جان حالت کو پہنچنے تک یہ ایک رامپوری پٹھان کی الگ کہانی ہے۔ پر اُس شب تو مَیں اپنے طلبہ کی رہائی کے حقیقی امکان کی بجائے محض کسی نفسیاتی سہارے کی تلاش میں اُس مکان تک پہنچا جو عروس البلاد کراچی میں تالے چابی سے بے نیاز شاید واحد گھر ہو۔

لاہور بارایسوسی ایشن کے انتخابات کے نتائج سامنے آگئے

ڈاکٹر ظفرعارف اُس وقت والدہ کے ہاتھ کی تیار کردہ مُولی کی بھجیا روٹی کے ساتھ کھا رہے تھے۔ لڑکوں کی گرفتاری کا سُن کر کھانا ایک طرف کیا اور کہا ”آئیے، چلتے ہیں۔“ مَیں سمجھا کہ یونیورسٹی آف ریڈنگ میں پی ایچ ڈی کے دنوں کی اپنی دھکا اسٹارٹ کار نکالیں گے او ر رُخ کریں گے یونیورسٹی روڈ سے صدر اور پھر تھانہ کلفٹن کا۔ ساتھ ہی ہر نیا موڑ مڑتے ہوئے بیوروکریسی، پیٹی بورژوا دانش وروں یا جماعت اسلامی کے سیاسی داؤ پیچ کے بارے میں کوئی باریک نکتہ سمجھاتے ہوئے داد طلب لہجے میں سوال ہوگا ”سمجھے صاحب؟“ لیکن نہیں، ڈاکٹر صاحب تو مجھے او ر طاہر کو پیدل لے کر نکلے اور ذرا ہی دُور وائس چانسلر کے بنگلہ میں بے تکلفی سے داخل ہوگئے۔ اوپر سے ڈاکٹر جمیل جالبی کی آواز آئی ”ڈاکٹر صاحب، فکر نہ کریں۔ اُنہوں نے بچوں کو چھوڑ دیا ہے۔“ مَیں نے سوچا ”اللہ ہی جانے کون بشر ہے!“

سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ، 5 جوان شہید، 3 دہشتگرد بھی مارے گئے

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اجازت لے کر مَیں اور طاہر ہاسٹل واپس آ جاتے اور رہائی پانے والوں سے اُن کا احوال سُنتے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے زور دیا کہ مُولی کی بھجیا مزے کی ہے، آپ بھی کھا لیں۔ ساتھ ہی وہ پلیٹ اپنی طرف سرکا لی جسے چھوڑ کر ہمارے ساتھ چل دیے تھے۔ چند منٹ میں والدہ نے مزید بھجیا اور نہایت مہین، تازہ پھلکے بھیج دیے۔ دونوں پنجابی ڈھگوں نے آدھ آدھ درجن سے کم کیا کھائے ہوں گے۔ ڈاکٹرصاحب نے اِسی پر بس نہیں کی۔ کھانا ختم کر کے کار نکالی اور ہماری قیام گاہ تک چھوڑنے آئے۔ ابتدائی گمان تھا کہ ہندی انشٹھانوں کی انتم سبھا اب سماپت ہو گئی ہے۔ مگر نہیں، صاحب۔ کہنے لگے کہ طاہر لڑکوں کو جمع کرے، شاہد ملک آج کے واقعے پر تقریر کریں گے۔ لیڈری کا نشہ منٹوں میں چڑھ جاتا ہے۔ ہجو م دیکھ کر میرے اندر کا اسٹوڈنٹ لیڈر بھی مچلنے لگا۔

پاکستان تحریک انصاف اور تحریک انصاف نظریاتی کےدرمیان معاہدے کا انکشاف، تفصیلات سامنے آگئیں

پھر بھی یاد تھا کہ وائس پرنسپل مطیع اللہ خان کے الوداعی خطاب کے دوران راولپنڈی کی خیرمقدمی ’اوں‘ جامعہ کراچی میں بھی گونج سکتی ہے۔ سو، پیشہ ور خطیبوں کی طرح قاری صاحب کو ہدایت کی کہ تلاوت کا دورانیہ طویل رکھیں تا کہ تقریر کے لیے سازگار ماحول بن جائے۔ تِیر نشانے پر بیٹھا مگر جو نکتہ کارگر ہو سکتا تھا طلبہ کا جوش و خروش دیکھ کر وہی دماغ سے محو ہو گیا۔ لڑائی بھڑائی کے پس منظر میں، جو سنگین رُخ بھی اختیار کر سکتی تھی، اپنی اِس ابتدائی نصیحت کو دُہرانا مقصود تھا کہ ہمیں کسی صورت قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ اِس کی جگہ مُنہ سے نکلا ”مَیں ماننے کو تیار نہیں کہ گورڈن کالج کا طالب علم کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت کر سکتا ہے۔ قصور سارے کا سارا اُن دکانداروں کا ہے جنہوں نے لڑائی کو ہوا دی۔“ بے تحاشا تا لیاں بجیں۔ سب سے زیادہ طاہر اکرام خوش تھے۔

حوثی باغیوں کیخلاف ٹاسک فورس 153 میں شامل ہونے کی امریکی دعوت پاکستان نے مسترد کردی

اگلا دن پروگرام کے مطابق ہاکس بے میں گزرا۔ چُپکے سے نمازِ جمعہ بھی ادا کر لی کہ پولیس اسٹیشن کی آزمائش سے صحیح و سالم گزر جانے پر باطن کے ہرے گوشے جذبہء تشکر کے اظہار کے لیے بیتاب تھے۔ راستے میں شہناز بیگم اور سہیلیوں کے انداز میں ’سوہنی دھرتی، اللہ رکھے قدم قدم آباد کا‘ کورس گونجتا رہا۔ اب یہ نہ پوچھیں کہ ہماری بس میں شہناز بیگم سے مراد کون ہیں۔ بِیچ بیِچ میں طاہر اکرام کی نیم انگلش میڈیم آواز بھی بلند ہوتی اور جواب میں طالب علموں کا نعرہ: ’نیم آف دا وکٹری، گورڈن گورڈن۔ آل اوور دا کنٹری، گورڈن گورڈن۔ کالج ٹو کالج، گورڈن گورڈن۔کیمپس ٹو کیمپس، گورڈن گورڈن‘۔ مگر یہ مصروفیات کا صرف ایک پہلو ہے۔ اُن دنوں جنرل ضیا الحق کے خلاف بحالیء جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی زوروں پر تھی اور سندھ میں اِس کا اثر زیادہ نمایاں تھا۔ اگلی بات اِسی حوالے سے ہے۔

ہاکس بے سے یونیورسٹی لوٹے تو ڈاکٹر ظفر عارف منتظر تھے کہ آج لیاری میں ایم آر ڈی کا جلسہ ہے، آپ اور اسد علی تیار رہیں۔ طاہر کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، سو اُنہیں ہاسٹل میں چھوڑا اور ہم اپنے تئیں جمہوری سفر پر روانہ ہوگئے۔ عہد ِجبر میں سیاسی کارکنوں کی قربت کتنی بڑی نعمت ہے؟ یہ کوئی ہم سے پوچھے۔ پر جلسہ گاہ پہنچنے کی دیر تھی کہ پی ایف یو جے کے دیومالائی صدر منہاج برنا کے بھائی اور ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی جانشین معراج محمد خاں نے تالیوں کی گونج میں اعلان کر دیا: ”ہم پنجاب سے آئے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔“ مہمانوں کو ہاروں سے لاد کر اسٹیج پر بٹھا دیا گیا۔ بطور سرکاری ملازم روٹی کی ’بُرکی‘ میں قید ہو جانے کا احساس ہو رہا تھا۔ اگلے دن اخباروں میں تصویر بھی چھپ گئی مگر خدا جانے کیا تھا کہ اسد اور مَیں دونوں تنزلی یا تبادلہ کے احکامات سے بچے رہے۔ (جاری ہے)

QOSHE -        حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (5)  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (5) 

5 1
14.01.2024

صحافت کی تدریس میں کون، کب اور کیا کے علاوہ خبر کی تعریف کے لازمی اجزا یہی ہیں کہ کہاں، کیوں اور کیسے؟ جنوری 1983 ء میں گورڈن کالج کے دو سو طلبہ کراچی کے تفریحی دورے پر تھے کہ اُن میں سے اُنیس ساحلِ سمندر پہ دکانداروں سے جھگڑنے کے الزام میں حوالات جا پہنچے۔ طے شدہ پروگرام سے ہٹ کر اُس شام مجھ سمیت دونوں نگران اساتذہ نے سب کو نجی طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ بہرحال، اِسے مستقبل میں رائٹر نیوز ایجنسی کے نامہ نگار طاہر اکرام کی مہارت کا پیشگی اشارہ سمجھنا چاہیے کہ تھانہ کلفٹن سے ایک ہم جماعت کا ٹیلی فون سُن کر یہ خبر طاہر مرحوم ہی نے بریک کی۔ اب دونوں استاد کیا کریں؟ اِس لیے کہ راولپنڈی سے کراچی لانے والی ٹرین پر بلاٹکٹ اسٹوڈنٹس کے خلاف ریلوے مجسٹریٹ کے چھاپے کے بعد یہ دوسرا ’پُلس مقابلہ‘ ہے۔

’اب تحریک انصاف کا نام تو رہے گا لیکن ۔ ۔ ۔‘ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا موقف بھی آگیا

خوب یاد ہے کہ جامعہء کراچی کے ہاسٹل میں ہمارے طالب علم گراؤنڈ فلور پر ڈورمیٹری نما طویل و عریض کمروں میں بچھے فرشی بستروں پر ڈٹے ہوئے تھے۔ پروفیسر اسد علی اور میرے لیے البتہ شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے مہربان طلبہ نے اپنے طور پر بالائی منزل پر دو کیوبیکل خالی کر دیے اور بااصرار وہِیں ٹھہرایا۔ طاہر اکرام کی زبانی بریکنگ نیوز سُنی تو ذہن ماؤف ہو گیا اور حافظے میں خاندان کے ایک سیالکوٹی بزرگ کی تشبیہہ ابھری کہ ”اپنی مرضی نال مَیں کچہری کدے نئیں گیا، اتے تھانہ ہور وی دُور اے۔“

بلے کے نشان سے متعلق فیصلے پر پیپلزپارٹی کا ردعمل بھی آگیا

صدمے کی حالت میں بسا اوقات آدمی کا تصور اُس کے ساتھ عجیب عجیب کھیل کھیلتا ہے۔ ایک دم یوں لگا کہ میرے خاندانی بزرگ کی تصویر ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے عکس میں بدل گئی ہے، جن سے اُسی صبح فلاسفی ڈپارٹمنٹ میں طویل وقفے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play