سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے سیاست اور تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے سینٹ کی نشست بھی چھوڑ دی ہے ۔ وہ تحریک انصاف اور اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔

دیکھا جائے تو شوکت ترین کا جرم یہ نہیں تھا کہ انہوں نے 9مئی کے واقعات کی پلاننگ میں حصہ لیا تھا یا یہ کہ فوج مخالف کارروائیوں کے لئے وسائل فراہم کئے تھے ۔ ان پر یہ الزام بھی نہیں کہ انہوں نے 9مئی کے بلووں میں حصہ لیا تھا یا پھر کسی نامعلوم مقام سے ان کارروائیوں کی نگرانی کی تھی اور موبائل فون پر ہدایات جاری کرتے رہے تھے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے صوبائی وزرائے خزانہ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھیں کہ وہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کے ساتھ ان کے معاہدوں کی پاسداری نہیں کریں گے، ان کا یہ جرم ریاست پاکستان کے خلاف جرم تھا جو فوج کے اندر بغاوت کروانے اور فوجی تنصیبات پر چڑھ دوڑنے سے بڑھ کر ہے، اس لئے اس کے باوجود کہ شوکت ترین نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے ، ان کی معافی نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ ریاست سے غداری کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے، یہ آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ، خاص طور پر جب سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ آئی ایم ایف جیوپولیٹکس کے تناظر میں پاکستان کے لئے قرضے کی فراہمی کو اس لئے تاخیر کا شکار بنا رہا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے ۔

نگراں حکومت نے کھاد کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے لیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بھی پس پردہ ایسی قوتیں کارفرما ہیں،جو پاکستان میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات کو متنازع بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں تاکہ ملک میں وہ سیاسی استحکام نہ آسکے، جس کے نتیجے میں سی پیک سے جڑے عالمی سرمایہ کاری کے فوائد پاکستان کو حاصل ہو سکیں،اس حقیقت سے نہ صرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ،بلکہ نون لیگ بھی پوری طرح آگاہ ہیں اور ہر وہ قدم اٹھاتے جا رہے ہیں، جس سے اگلے عام انتخابات کو غیر متنازع رکھا جا سکے، کیونکہ انتخابات متنازع ہو جائیں تو ملک ٹوٹ جایا کرتے ہیں اور پاکستان ایسا سانحہ پہلے بھی سہہ چکا ہے ۔ نون لیگ کی جانب سے پی ٹی آئی مخالف تمام قوتوں کے ساتھ قبل از انتخابات کی بات چیت اسی کوشش کا حصہ ہے۔ دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ کی کمان بھی ایک محب وطن چیف جسٹس کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے اور جو کسی فوجی جرنیل کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بھی بننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب پی ٹی آئی کے لئے اگلے عام انتخابات کے چشمے کے پانی کو زہر آلود کرنے کے مواقع مسدود ہوتے جا رہے ہیں ۔ آ جا کر الیکٹرانک میڈیا کے چند ایک سر پھرے ہیں جو شدومد سے انتخابات کو متنازع بنانے اور نو ن لیگ کے بیانئے کا مخمصہ ایک ایشو کے طور پر پیش کرنے میں جتے ہوئے ہیں، حالانکہ ان کو خبر ہونی چاہئے کہ یہ بیانئے والی پارٹی نہیں ہے،بلکہ عوامی خدمت کو فرض جان کر اقتدار میں رہنے والی پارٹی ہے۔ ایک نون لیگ ہی کیا ، پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور روائتی سیاسی جماعت کسی کو بھی عوام کے پاس جانے کے لئے آج تک کسی بیانئے کی ضرورت نہیں پڑی،زیادہ سے زیادہ کوئی ایک آدھ نعرہ کافی ہوتا تھا ۔ جب سے پی ٹی آئی لاﺅ لشکر سے لیس ہو کر میدان میں اتاری گئی تب سے اس ملک میں بیانئے کی جنگ کا آغاز ہوا،کیونکہ اسے اپنے جھوٹ کوسچ ثابت کرنے کے لئے اس کی ضرورت تھی ،جو ووٹ لینے کے لئے عوام کو بتاتی رہی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے بہتر ہو گا کہ عمرا ن خان خودکشی کریں گے، لیکن جب اقتدار مل گیا تو اس کے وزیر خزانہ جھٹ سے کشکول صاف کرکے مانگنے کے لئے واشنگٹن پہنچ گئے اور پھر ایک نیا بیانیہ گھڑا گیا کہ یو ٹرن لینا تو ایک بڑے لیڈر کی نشانی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ!

چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف وزیراعظم ہاؤس طلب

یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی آئی نواز تجزیہ کار یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ نواز شریف یوں بھی غلط ہیں اور یوں بھی غلط ہیں، یعنی وہ احتساب کی بات کریں تو انہیں منتقم مزاج کہہ کر مسترد کردیاجائے اور اگر مفاہمت کی بات کریں تو لاڈلے کا طعنہ دینا شروع کردیا جائے،حالانکہ جس طرح سابقہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو رگیدا تھا اور اس عمل میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی حصہ دار بنی ہوئی تھی ، اس نے نواز شریف کے لئے اقتدار کی کرسی کو بے وقعت کردیا ہے، اس سے کہیں بہتر تو ان کے لئے ہر جلسے میں لگنے والا نعرہ ہے کہ ’میاں صاحب! آئی لو یو!‘

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

اس ضمن میں ایک اور بات انتہائی اہم ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ہر سطح پر تقسیم موجود ہے۔بھٹو کے خلاف یہی سوچ انہیں پھانسی گھاٹ تک لے گئی تھی اور نواز شریف کے خلاف یہی سوچ پچھلے چوبیس برسوں میں انہیں انتخابات سے دور رکھے ہوئے ہے اور انہیں کبھی دور اقتدارپورا نہیں کرنے دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے آنے کے بعد فرق یہ پڑا ہے کہ یہ سوچ زیادہ کھل کر عوام کے سامنے آگئی ۔ فوج کے اندر سیاسی تفریق ہویدا ہو گئی اور اسی لئے تو اگلے عام انتخابات کی نزاکت میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ نواز شریف کی جیت کے دوبارہ سے ادارے کے اندر ایک اور بغاوت سر اٹھالے ،اس لئے ہر محب وطن پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے اور وہ جو کہ برا وقت پڑنے پر امیگریشن لے کر ملک سے غائب ہو جاتے ہیں ، چاہتے ہیں کہ اس ملک میں دھماچوکڑی مچی رہی اور وہ ”لُٹو تے پھُٹو“ کی پالیسی پرعمل پیرا رہیں۔

پاکستان کا اسرائیل سے غزہ پر ظالمانہ اور غیرانسانی حملے روکنے کا مطالبہ

QOSHE -   9مئی سے بڑا جرم - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  9مئی سے بڑا جرم

8 4
10.12.2023

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے سیاست اور تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے سینٹ کی نشست بھی چھوڑ دی ہے ۔ وہ تحریک انصاف اور اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔

دیکھا جائے تو شوکت ترین کا جرم یہ نہیں تھا کہ انہوں نے 9مئی کے واقعات کی پلاننگ میں حصہ لیا تھا یا یہ کہ فوج مخالف کارروائیوں کے لئے وسائل فراہم کئے تھے ۔ ان پر یہ الزام بھی نہیں کہ انہوں نے 9مئی کے بلووں میں حصہ لیا تھا یا پھر کسی نامعلوم مقام سے ان کارروائیوں کی نگرانی کی تھی اور موبائل فون پر ہدایات جاری کرتے رہے تھے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے صوبائی وزرائے خزانہ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھیں کہ وہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کے ساتھ ان کے معاہدوں کی پاسداری نہیں کریں گے، ان کا یہ جرم ریاست پاکستان کے خلاف جرم تھا جو فوج کے اندر بغاوت کروانے اور فوجی تنصیبات پر چڑھ دوڑنے سے بڑھ کر ہے، اس لئے اس کے باوجود کہ شوکت ترین نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے ، ان کی معافی نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ ریاست سے غداری کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے، یہ آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ، خاص طور پر جب سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ آئی ایم ایف جیوپولیٹکس کے تناظر میں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play