کامیاب ازدواجی زندگی کِن مراحل سے گزر کر طاہر اکرام کے لیے مستحکم پیشہ ورانہ وابستگیوں کی راہ ہموار کر گئی؟ یہ روداد بذاتِ خود ابلاغیات کے پوسٹ گریجوایٹ طلبہ کے لیے امکانی ریسرچ کا ایک دل پسند موضوع ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ 1980ءکی دہائی کے وسط میں روزنامہ ڈان کے نامہ نگارِ برطانیہ اور میرے سُسر کے دوست ایم۔اے۔منصوری نے مجھ سے لندن میں مِلتے ہی ایک حیرت آمیز شکوہ کیا تھا:”بھئی، یہ اکرام صاحب نے کیا کِیا ہے؟ لڑکے کو اخبار میں رکھوا دیا۔“ ناخوشی کے اِس اظہار کے پیچھے قریبی ساتھیوں کی آل اولاد کے لیے اچھی تنخواہ اور پُرکشش مادی زندگی کی خواہش کو دخل ہو سکتا ہے۔ اصل بات اِس سے ہٹ کر تھی اور وہ ہے انگریزی رپورٹنگ کی نرسری اور غیر سرکاری خبر رساں ایجنسی پی پی آئی سے طاہر کا ابتدائی تعلق اور پھر ایک ایک کر کے کئی قلابازیاں۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے مکمل نتائج کا اعلان کردیا

قلابازیوں کا آغاز تو خیر اُسی دن سے ہو چکاِ تھا جب بی ایس سی میں لیکچرز مطلوبہ حد سے کم ہونے کی بنا پر ، جس کی پیشگی وارننگ میرے توسظ سے مِلی، گورڈن کالج کے پرنسپل نے یونیورسٹی فائنل کے لیے طاہر کا داخلہ بھیجنے سے انکار کر دیا۔ حرام ہے جو ہمارے نوجوان کو اِس واردات پر کوئی تشویش ہوئی ہو۔ قدرے متانت سے کہنے لگے کہ خوب سوچ سمجھ کر ٹرک ڈرائیور بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مَیں حیران تو ہوا لیکن طاہر کی جلد باز اور ضدی طبیعت سے بخوبی واقف تھا۔ چنانچہ اُن کی طرف سے کج بحثی شروع ہوتے ہی اِس عبوری حکم پر اتفاقِ رائے کو اپنی کامیابی جانا کہ ڈرائیوری بطور پیشہ اختیار کرنے کے فیصلے پر تِین روز کے لیے عمل درآمد معطل رہے گا۔ ہم اِس پر بھی متفق ہو گئے کہ فیصلے کو حتمی شکل دینے سے پہلے پروفیسر آفتاب اقبال کا مشورہ بھی لے لیں جو طاہر کے باضابطہ استاد تھے۔

کراچی میں بھتہ خوروں کو مسلط نہیں ہونے دیں گے، حافظ نعیم الرحمان کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان

زندگی کے تجربے سے لَیس آفتاب صاحب نے ، جنہیں ہم شاعر ہی سمجھتے رہے، کالج روڈ کے سٹار ہوٹل میں طاہر سے چھوٹتے ہی کہا۔ :”طاہر اکرام ، مسئلہ ہی یہ ہے کہ والدین آج تک تمہاری ہر جائز ناجائز مانتے رہے۔ اِس کے عوض تم نے اُنہیں کیا دیا ہے؟ “ سہمے ہوئے طاہر نے کہا”سر، لیکچرز اِتنے شارٹ ہیں کہ بی ایس سی کا امتحان نہیں دیا جا سکتا۔“ ”نہیں دیا جا سکتا نا۔ تو سال ضائع کرنے کی بجائے خاموشی سے بی اے کا داخلہ بھیج دو ۔ پولیٹکل سائنس اور ہسٹری تمہارے لیے مشکل مضامین نہیں۔ انگریزی کی کچھ اضافی کتابیں ہیں، وہ بھی تم آسانی سے پڑھ لو گے۔“ ڈرائیور بننے کے اقدام میں تین روزہ تعطل میرا ایک عارضی حکمِ امتناعی تھا۔ اب لارجر بینچ نے فیصلہ سُنایا تو چند ماہ میں بی اے کی ڈگری بھی جاری ہو گئی۔ طاہر یہی ٹوٹی پھوٹی ڈگری ہاتھ میں لے کر صحافت کی قلمرو میں داخل ہوئے۔

زرتاج گل نے انتخاب جیتنے کے بعد کس کے حق میں بیان دیا؟

بی بی سی کی آفر مِلنے پر میری اور نبیلہ کی لندن روانگی کی الوداعی شام سوشیالوجی کے نامور مدرس اور ہمدمِ دیرینہ آصف ہمایوں نے راولپنڈی کے ہوٹل شالیمار میں ایک نجی اِکٹھ کا انتظام کیا۔ نجی اِن معنوں میں کہ نصراللہ ملک، آفتاب اقبال شمیم، توصیف تبسم اور بابر ہاشمی سمیت گورڈن کالج کے اساتذہ ، میرے کزن فاروق اور طاہر کی موجودگی میں چائے پیتے ہی ہمارے شعبہءانگریزی کے پروفیسر اطہر فاروقی نے ہارمونیم نکال لیا۔ پشاور یونیورسٹی میں استادِ ادب اور نامور محقق ڈاکٹر طاہر فاروقی کے قدرے کم آمیز فرزند نے صرف ہارمونیم نہیں نکالا ، اپنی گمبھیر اور پُر سوز آواز میں ہم سب کی ملاقات پنکھج ملک، کے۔ایل۔سہگل اور ہیمنت کمار سے بھی کرا دی۔ محفل ختم ہوئی تو طاہر نے کہا کہ علی الصبح آپ کی فلائٹ ہے ، نبیلہ کو گھر چھوڑ کر باقی رات آپ اور مَیں انٹرکانٹیننٹل میں بیٹھیں گے، کچھ پلاننگ کرنی ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

مستقبل کی منصوبہ بندی سے پہلے صیغہءحال میں پوچھا کہ پی پی آئی میں کام کیسا چل رہا ہے؟ اِس پر سینئر ساتھیوں کے خلاف ایک دفتر کھُل گیا۔ اب مَیں اُن ہم پیشہ بزرگوں کے نام بھی نہیں لے سکتا جنہیں ناقابلِ بیان القابات سے نواز ا گیا تھا۔ ساتھ ہی کہنے لگے میرا مزاج رپورٹنگ کا ہے ، روز روز سب ایڈٹنگ تو تخلیقی کام ہے ہی نہیں۔ مجھے یکدم بے تکلف ہم جماعت اور بعد کے برسوں میں اے پی پی کے ڈائریکٹر زمان ملک یاد آئے جنہوں نے کچھ دن پہلے کہا تھا: ”یار، قومی اسمبلی کے پریس روم میں لوگ ٹائپ رائٹر پر کاغذ چڑھا رہے ہوتے ہیں کہ طاہر اسٹوری فائل کر دیتا ہے۔“ مَیں نے زمان کا ذکر کیے بغیر کہا کہ ڈیسک کا تجربہ تحریر میں توازن، صحت اور پختگی کا ضامن ہے ، آپ کے والد نے بھی پاکستان ٹائمز کی رپورٹری سے پیشتر پانچ سال الطاف حسین کی زیرِ ادارت ڈان کے ڈیسک پر گزارے تھے۔

اہم مذہبی جماعت نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کردیا

دسمبر 1986 ءمیں سالانہ چھٹی پر ہمارا اسلام آباد آنا ہوا تو دیکھا کہ ادارہ نوائے وقت کے زیرِ اہتمام انگریزی روزنامے ’نیشن‘ کی اشاعت شروع ہو چکی ہے اور طاہر اِس نویں نکور بیورو میں اظہر سہیل اور نصرت جاویِد جیسے صاحبِ علم اخبار نویسوں کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ پھر بھی قبل از شادی پیشہ ورانہ قلابازیوں میں سب سے دلچسپ وہ ہے جب جرمنی میں ایک کانفرنس کی رپورٹنگ سے یوں فارغ ہوئے کہ ’نیشن‘ ہی سے فارغ ہو گئے اور ’فرنٹئیر پوسٹ‘ سے ناتا جوڑ لیا۔ دراصل بروقت وطن واپسی سے پہلے ایڈیٹر عارف نظامی کی یاد دہانیوں کے باوجود بِیچ میں کئی ماہ خوامخواہ لندن میں ’ٹِکی‘ ہو جانے کا وقفہ بھی ہے۔ مزے کا ذاتی واقعہ وہ تھا جب طاہر نے میری کار میں غلطی سے پٹرول کی جگہ ڈیزل ڈال دیا جس سے انجن پر خوشگواراثر تو نہ پڑا ۔ مگر لگی یہ مجھے ایک علامتی حرکت۔

پرویز خٹک کو پی ٹی آئی کارکنان نے گھیر لیا تو انہوں نے کیا کِیا؟

علامتی اور حقیقی کی درمیانی لیٹ طاہر اکرام نے نئی صدی سے قبل اسلام آباد میں رائٹر ز اور آخر میں کیمیائی صنعت کی نیوز ایجنسی آئی سی آئی ایس سے سنگاپور میں وابستگی کے دوران نکالی ہے۔ پر یہ نہیں استادی شاگردی، ذاتی دوستی اور پھر رشتہ داری کی کہانی میں افسری ماتحتی کا سب پلاٹ گول کر دیا جائے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے دو روز پہلے کراچی سے نشریات کا آغاز کرنے والے ایک چینل کے پروگروم ڈائریکٹر کا عہدہ طاہر اکرام نے سنبھالا جو اُس وقت سی این بی سی پاکستان کے ڈائریکٹر تھے۔ اُنہی کے ایما پر مَیں لاہور میں نئے چینل کا بیورو چیف بنا تو ادارے میں بی بی سی، وائس آف جرمنی، رائٹرز نیوز ایجنسی اور قومی اخبارات کے تربیت یافتہ کارکن باہم شِیر و شکر ہو گئے تھے۔ یہ سی ای او اور رائٹرز کے سابق جنرل مینجر جاوید فاروقی کے دم سے ہوا جو سیٹھ کی نوکری کو کارپوریٹ کلچر میں بدلنے کی کوشش کرتے رہے۔

سلطنتِ مغلیہ کا زوال شروع ہوا تو ایک دن دیکھا کہ ایک ’چغتائی آرٹ ‘ خاتون میرے کمرے میں بھونچال برپا کیے ہوئے ہیں، جیسے کہہ رہی ہوں کہ اگر چیخ چلا کر بات سمجھائی جا سکتی ہے تو آرام سے کیوں بولا جائے۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ مجھ سے ملاقات محض تکلف ہے، وگرنہ کمپنی چئیرمین اُنہیں اینکر مقرر کر چکے ہیں۔ مگر کیوں؟ صحافیانہ ذرائع کاکہنا تھا کہ بھئی، چئیرمین بھی آخر انسان ہوتا ہے اور کسی ہوائی سفر میں چشمِ سبزگوں کا اثر بھی قبول کر لیتا ہے۔ اردو کیبل کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ پروڈیوسر بے چارہ ٹیلی پرومپٹر پر ایک کے بعد دوسرا سوال رومن میں تحریر کرتا اور میزبان ہر سوال سے جو سلوک چاہیتیں روا رکھتیں۔ چند ہفتوں میں اونٹنی خیمے کے اندر تھی اورسارے ہی بدو خیمے سے باہر۔ طاہر اکرام نے سمجھداری کی اور خیمہ کراچی سے اٹھا کر سنگا پور میں جا لگایا۔ یہ پندرہ سال پہلے کی بات تھی۔ آج دو مہینے ہوئے اُس نے خیمہ بہت دُور جا نصب کیا ہے ۔ ۔۔ جی ہاں ’وہ شہر جس سے مسافر نہ لوٹ کر آئے۔‘ (ختم شد)

QOSHE -      حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (9) - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (9)

12 2
11.02.2024

کامیاب ازدواجی زندگی کِن مراحل سے گزر کر طاہر اکرام کے لیے مستحکم پیشہ ورانہ وابستگیوں کی راہ ہموار کر گئی؟ یہ روداد بذاتِ خود ابلاغیات کے پوسٹ گریجوایٹ طلبہ کے لیے امکانی ریسرچ کا ایک دل پسند موضوع ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ 1980ءکی دہائی کے وسط میں روزنامہ ڈان کے نامہ نگارِ برطانیہ اور میرے سُسر کے دوست ایم۔اے۔منصوری نے مجھ سے لندن میں مِلتے ہی ایک حیرت آمیز شکوہ کیا تھا:”بھئی، یہ اکرام صاحب نے کیا کِیا ہے؟ لڑکے کو اخبار میں رکھوا دیا۔“ ناخوشی کے اِس اظہار کے پیچھے قریبی ساتھیوں کی آل اولاد کے لیے اچھی تنخواہ اور پُرکشش مادی زندگی کی خواہش کو دخل ہو سکتا ہے۔ اصل بات اِس سے ہٹ کر تھی اور وہ ہے انگریزی رپورٹنگ کی نرسری اور غیر سرکاری خبر رساں ایجنسی پی پی آئی سے طاہر کا ابتدائی تعلق اور پھر ایک ایک کر کے کئی قلابازیاں۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے مکمل نتائج کا اعلان کردیا

قلابازیوں کا آغاز تو خیر اُسی دن سے ہو چکاِ تھا جب بی ایس سی میں لیکچرز مطلوبہ حد سے کم ہونے کی بنا پر ، جس کی پیشگی وارننگ میرے توسظ سے مِلی، گورڈن کالج کے پرنسپل نے یونیورسٹی فائنل کے لیے طاہر کا داخلہ بھیجنے سے انکار کر دیا۔ حرام ہے جو ہمارے نوجوان کو اِس واردات پر کوئی تشویش ہوئی ہو۔ قدرے متانت سے کہنے لگے کہ خوب سوچ سمجھ کر ٹرک ڈرائیور بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مَیں حیران تو ہوا لیکن طاہر کی جلد باز اور ضدی طبیعت سے بخوبی واقف تھا۔ چنانچہ اُن کی طرف سے کج بحثی شروع ہوتے ہی اِس عبوری حکم پر اتفاقِ رائے کو اپنی کامیابی جانا کہ ڈرائیوری بطور پیشہ اختیار کرنے کے فیصلے پر تِین روز کے لیے عمل درآمد معطل رہے گا۔ ہم اِس پر بھی متفق ہو گئے کہ فیصلے کو حتمی شکل دینے سے پہلے پروفیسر آفتاب اقبال کا مشورہ بھی لے لیں جو طاہر کے باضابطہ استاد تھے۔

کراچی میں بھتہ خوروں کو مسلط نہیں ہونے دیں گے، حافظ نعیم الرحمان کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play