اگر آپ جھوٹ کی فرماں روائی کے اِس دور میں بھی کسی ناپسندیدہ سچ کے اظہار یا اپنی کوئی الگ رائے رکھنے کے خنّاس میں مبتلا ہیں، تو پھر یہ امر جلد یا بدیر آپ کے دل ہی نہیں آپ کی روح پر بھی گہرے گھاؤ لگانے کا باعث بن سکتا ہے۔

کیونکہ اس سماج میں اب یہ رویہ عام ہے کہ لوگ اختلاف رائے کو باقاعدہ اعلانِ جنگ سمجھتے ہیں اور مکالمے اور دلائل سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، تاریخی شواہد کا مقابلہ گالم گلوچ سے کرتے ہیں اور اگر معاملہ کسی مقبول سوچ‘ کے خلاف کوئی غیر مقبول سچائی کہنے کا ہو تو پھر اس کی شدت کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔

ایسے ہی غیر منطقی اور فضول اختلاف رکھنے والے جتھے جب آپ کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں پاتے، تو الٹا آپ ہی پر متعصب، جانب دار، یہاں تک کہ تنگ نظر ہونے تک کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں، اب ان کے ہاتھ ایک اور فضول جذباتی طعنہ یہ آگیا ہے کہ ’’ اچھا بھئی، آپ فلاں، فلاں شخصیت کی بہت طرف داری کر رہے ہیں، تو دعا کیجیے کہ ’’ اللہ حشر والے دن آپ کا انجام انھی کے ساتھ کرے۔۔۔! ‘‘

یہ کیا بات ہوئی؟ پہلے تو ایسی لایعنی اور فضول بات کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ صرف کسی معاملے میں تصحیح کی بات کی جائے تو، اس میں طرف داری اور مخالفت کا پہلو کہاں سے آگیا ؟ یعنی اگر کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جا رہی ہے، جو کہ اس نے نہیں کہی، یا اس کا موقف یا کردار ایسا نہیں تھا کہ جیسا کہ بتایا جا رہا ہے اور کوئی فقط درستی کررہا ہے، تو اس کا کہیں بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ہم اس کے حامی اور طرفدار ہوگئے ہیں۔

اگر کوئی فرد فلاں فلاں وجوہ کی بنا پر آپ کو ناپسند ہے، توکیا آپ اس پسند اور ناپسند کی وجہ سے اس انتہا کا شکار بھی ہو سکتے ہیں کہ اس کی کسی دوسرے کی اچھائی کو بھی رَد کر دیں گے؟ تاریخی سچائیوں اور واضح حقائق کو ڈھٹائی سے جھٹلا دیں گے اور سچ کہنے کی پاداش میں یہ کہہ کر ملامت کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے کہ ’’ پھر یہ دعا کرو کہ حشر میں تمہارا انجام بھی اسی شخصیت کے ساتھ ہو!‘‘

آخر کیوں؟ یعنی آپ کے دیکھنے کے لیے کیا صرف سیاہ اور سفید ہی ہے؟ اس کے درمیان میں کوئی سرمئی علاقہ نہیں، کسی ’’ اچھے ‘‘ میں برائی، اور کسی ’’ برے‘‘ میں اچھائی ہو تو کیا اسے اپنی خواہش کے پردے میں چھپا دینا چاہیے۔

یہ تو اللہ ہی جانے کہ اگلے جہان میں کسی کا انجام کیا ہو اور کیا نہ ہو اور ہم کیوں کسی کے اچھے یا برے انجام کے ساجھے دار بنیں؟ میدانِ حشر میں کس کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے۔

ہم اس بارے میں کیسے لب کشائی کر سکتے ہیں۔ ہم تو اس رویئے پر یہی کہتے ہیں کہ یہ کسی باشعور، تعلیم یافتہ اور معقول آدمی کو زیب نہیں دیتا۔ اس لیے ایسی انتہا کو چھوتے ہوئے کم از کم یہی سوچ لیا کیجیے کہ بہ حیثیت مسلمان، ہم کسی کے بارے میں اس کے انجام کو نیک اور بد کے تناظر میں بیان کردیں۔

یہ بات بھی نہایت غلط اور لغو ہے کہ آپ اپنے تئیں اپنی اپنی ناپسندیدہ شخصیت کو گمراہ طے کر کے اس کے مثبت پہلو کی بات کرنے والوں کو یہ ڈراوے دیں کہ اور بتاؤ اس کی کوئی اچھی بات، ہم تمھیں اس طرح بلیک میل کریں گے۔! خود سوچیے کہ آپ کا یہ بچکانہ پن نہ صرف یہ کہ کس قدر بھونڈا اور فضول ہے، بلکہ آپ کے بودے دلائل اور اس پر ہٹ دھرمی کی خبر بھی دے رہا ہے۔

کیوں کہ آپ میں اتنا ظرف ہی نہیں ہے کہ آپ تاریخ کو تاریخ کی طرح قبول کر سکیں! تاریخ تو ایک نہایت بے رحم شعبہ ہے، اس میں بہت سی تلخ و ترش باتیں نکل آتی ہیں اور اگر آپ تاریخ کے سچے طالب علم ہیں، تو آپ کے اندر اتنی گنجائش اور وسعت ہونی چاہیے کہ آپ غیر متنازع انداز میں تاریخ کی مکمل سچائیوں کو کھوج سکیں۔

تاریخ کے مطالعے کے دوران کوئی قائد، راہ بر، سربراہ اور راہ نما نہیں ہوتا، سبھی دلائل کے کٹہرے میں برابر کھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور آپ کو سچائی کی تلاش میں سب سے برابر رویہ رکھنا ہوتا ہے۔ تاریخ میں صرف سچائی ہی بالاتر ہوتی ہے۔

تاریخ آپ کے کسی قائد اور راہ نما کو نہیں جانتی، بہت کم لوگ ہیں، جن کے کردار یا کام میں کوئی کجی، کمی، سہو اور چُوک نہ ہو۔ اس لیے ہمیں اپنی پسندیدہ شخصیات سے جذباتی وابستگی کے ساتھ ساتھ اپنا ذہن بھی کھلا رکھنا چاہیے اور اپنے ان ’راہ بروں‘ کو اچھائیوں اور برائیوں، خوبیوں اور خامیوں یا غلطیوں کے ساتھ قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔

کسی بلند پایہ شخصیت سے بھی اگر کوئی چُوک یا غلط فیصلہ ہوگیا ہے، تو کوئی بات نہیں، وہ انسان ہی تو ہیں، کوئی فرشتے تو نہیں اور انسان خطا کا پُتلا ہے۔ اس سے کسی بھی وجہ سے کہیں بھی کوئی کمی رہ سکتی ہے، کوئی غلط بات بھی ممکن ہے، زبان پھسل سکتی ہے، خیال بھی بہک سکتا ہے، اگر اس کا مجموعی کردار اور مقام اعلیٰ ہے، تو وہ اپنی جگہ پر برقرار ہے۔

ایسے ہی تاریخ کے بہت سے کردار ہمیں ’ناپسند‘ ہوتے ہیں، ممکن ہے ہمارے خیال میں ان کا مجموعی کردار خراب اور برا ہو، لیکن اگر کہیں ان کا کوئی اچھا پہلو ہے، تو ہم اسے بھی نظرانداز نہیں کر سکتے، ہر چند کہ شاید اس ’’ بری شخصیت ‘‘ پر خاطر خواہ اثر نہ پڑے، لیکن بہ حیثیت تاریخ کے طالب علم کے، ہمیں اس کی وہ درست بات ضرور یاد رکھنی چاہیے، کیوں کہ تاریخ ایسے ہی عجیب وغریب اتفاقات اور سوالوں کا ہی نام ہے، جو اپنے آنے والوں کے لیے بہت سے سبق اور بہت سی نشانیاں چھوڑ جاتی ہے۔

اگر آپ بھی علم اور تاریخ سے شغف رکھتے ہیں، لیکن صرف اپنی مرضی کے سچ دیکھنا چاہتے ہیں، تو پھر معذرت کے ساتھ آپ کو صرف مخصوص کہانیاں اور افسانے ہی پڑھنے چاہئیں، یا پھر متعلقہ شخصیت کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے قصیدے، کیوں کہ آپ کے اندر سچ تک پہنچنے کی لگن اور حوصلہ موجود نہیں ہے۔ اگر آپ سچ جاننا چاہتے ہیں، تو دل کو بڑا اور ذہن کو کھلا رکھیے، تاکہ کسی تلخ سچائی پر بیچ و تاب کھا کر آپ مجبوراً یہ طعنہ نہ دیں کہ ’’اللہ کرے تمہارا انجام بھی انھی کے ساتھ ہو!‘‘

QOSHE - اللہ کرے تمہارا انجام انھی کے ساتھ ہو !… - رضوان طاہر مبین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اللہ کرے تمہارا انجام انھی کے ساتھ ہو !…

4 0
14.01.2024

اگر آپ جھوٹ کی فرماں روائی کے اِس دور میں بھی کسی ناپسندیدہ سچ کے اظہار یا اپنی کوئی الگ رائے رکھنے کے خنّاس میں مبتلا ہیں، تو پھر یہ امر جلد یا بدیر آپ کے دل ہی نہیں آپ کی روح پر بھی گہرے گھاؤ لگانے کا باعث بن سکتا ہے۔

کیونکہ اس سماج میں اب یہ رویہ عام ہے کہ لوگ اختلاف رائے کو باقاعدہ اعلانِ جنگ سمجھتے ہیں اور مکالمے اور دلائل سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، تاریخی شواہد کا مقابلہ گالم گلوچ سے کرتے ہیں اور اگر معاملہ کسی مقبول سوچ‘ کے خلاف کوئی غیر مقبول سچائی کہنے کا ہو تو پھر اس کی شدت کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔

ایسے ہی غیر منطقی اور فضول اختلاف رکھنے والے جتھے جب آپ کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں پاتے، تو الٹا آپ ہی پر متعصب، جانب دار، یہاں تک کہ تنگ نظر ہونے تک کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں، اب ان کے ہاتھ ایک اور فضول جذباتی طعنہ یہ آگیا ہے کہ ’’ اچھا بھئی، آپ فلاں، فلاں شخصیت کی بہت طرف داری کر رہے ہیں، تو دعا کیجیے کہ ’’ اللہ حشر والے دن آپ کا انجام انھی کے ساتھ کرے۔۔۔! ‘‘

یہ کیا بات ہوئی؟ پہلے تو ایسی لایعنی اور فضول بات کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ صرف کسی معاملے میں تصحیح کی بات کی جائے تو، اس میں طرف داری اور مخالفت کا پہلو کہاں سے آگیا ؟ یعنی اگر کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جا رہی ہے، جو کہ اس نے نہیں کہی، یا اس کا موقف یا کردار ایسا نہیں تھا کہ جیسا کہ بتایا جا رہا ہے اور کوئی........

© Express News


Get it on Google Play