[email protected]

پاکستان کی داخلی سلامتی، سیکیورٹی اور علاقائی ممالک سے تعلقات کی کنجی ہی ہمیں ایک مضبوط، مربوط اور مستحکم یا پرامن پاکستان کی طرف لے جانے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔

آج کی عالمی سیاست یا جدیدیت سے جڑی سیاست میں کسی بھی ریاست کی اہمیت اسی صورت میں دیکھنے کو مل سکتی ہے جب ہم داخلی محاذ پر ایک مستحکم سیاسی و معاشی طاقت کے طور پر خود کو منواسکیں گے ۔ہمیں دو مختلف محاذوں پرمسائل کا سامنا ہے۔

اول، داخلی محاذ پر امن وامان ، سیکیورٹی ، انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کی لہر یا واقعات کی بنیاد پر مضبوط سیاسی و معاشی استحکام کے سیاہ بادل موجود ہیں ۔ دوئم، علاقائی معاملات میں بھارت، افغانستان اور اب ایران کے ساتھ معاملات کی خرابی نے ہمارے علاقائی حالات میں کشیدگی کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے ۔

ایک طرف ہم جیو معیشت اور جیو تعلقات کو بنیاد بنا کر اپنے لیے سیکیورٹی کا مضبوط نظام ، دہشت گردی کا خاتمہ اور دوسری طرف علاقائی سطح پر موجود ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد پر نئے معاشی امکانات کو پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن ہماری خواہش اور زمینی حقایق میںفرق نظر آتا ہے کیونکہ مسائل کی گہرائی زیادہ پیچیدہ ہے ۔

معاملات کی بہتری کسی جادو کی چھڑی سے ممکن نہیں بلکہ ہمیں زیادہ سنجید گی کے ساتھ داخلی مسائل کا احاطہ کرنا اور ایک مضبوط پالیسی سمیت حکمت عملی کی بنیاد درکار ہے ۔

داخلی اور علاقائی تعلقات کی خرابی کے براہ راست تعلق کو کسی بھی سطح پر سیاسی تنہائی میں نہ دیکھا جائے اور ان دونوں کا باہمی تعلق ہی ہمیں کسی مسئلہ کے حل کی طرف لے جاسکتا ہے ۔علاقائی استحکام اور بہتر تعلقات ہماری سیاسی و معاشی سمیت سیکیورٹی ضرورت ہے اور یہ عمل اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب معاملات دو طرفہ ہوں کیونکہ کوئی بھی ملک تن تنہا معاملات کو درست کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔

ہماری قومی سیکیورٹی پالیسی کا ایک اہم نقطہ اسی کو بنیاد بناتا ہے کہ ہمیں علاقائی ممالک بشمول بھارت سے کشیدگی کے مقابلے میں تعلقات کی بہتری کی طرف پیش رفت کرنا ہے ۔لیکن اب ہمارا مسئلہ محض بھارت تک محدود نہیں بلکہ پہلے ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کے تناظر میں افغانستان کے ساتھ بداعتمادی کے پہلو موجود ہیں ۔

پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لینے کے لیے افغانستان سے مدد چاہتا ہے جب کہ افغانستان پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ طاقت کے بجائے مذاکرات کی مدد سے راستہ تلاش کیا جائے ۔جب کہ ایک بڑی تعداد میں افغانوں کے پاکستان سے انخلا کے معاملہ پر بھی افغان حکومت ناخوش نظر آتی ہے ۔

افغان حکومت پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور اس میں ٹی ٹی پی ملوث ہے ۔بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں ابھی تک ہم نے جو بھی کوششیں کی ہیں۔

اس کے مثبت نتائج بھارت کی جانب سے نہیں مل رہے اور جو بھی ڈیڈ لاک ہے وہ فی الحال بھارت کی جانب سے ہے ۔ بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت اور تعلقات کی بہتری اس کی سیاسی مجبوری ہے جو اس کے داخلی مسائل اور سیاسی تنہائی سے جڑی ہوئی ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بنیادی نوعیت کا سوال سمجھنا ہوگا کہ کیا بھارت پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتا ہے یا وہ دباؤ میں رکھ کر ہم پر مزید دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان نے واقعی دہشت گردی کو کچلنا ہے تو یہ بھارت سمیت دیگر علاقائی ممالک کے عملی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔

بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کی خرابی کا ایک نتیجہ افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی صورت میں بھی سامنے آرہا ہے۔کیونکہ ایک خیال یہ ہے کہ بھارت ہماری داخلی سطح کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ ہمیں مزید دباؤ میں لانا چاہتا ہے ۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت ، ایران کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے معاشی تعاون کے امکانات کے اضافہ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ایران کے ساتھ حالیہ دنوں میں جو کشیدگی پیدا ہوئی اس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے ۔دونوں اطراف کی جانب سے کارروائیوں نے حالات میں غیر یقینی پیدا کی ہے ۔

ایرانی فوج کا پہل کرنا اور اقدام غیر پیشہ ورانہ اورہمسایہ ممالک کی خودمختاری کے لیے خطرے کے مترادف ہے ۔دہشت گردی ایک عالمی اور علاقائی مسئلہ ہے اور اس کا علاج دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی ، رابطہ کاری یا تعاون کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اس لیے اگر ایران کو کوئی مسئلہ تھا تو سوال یہ ہے کہ ایران نے کیونکر دو طرفہ تعاون ، معلومات کی فراہمی سمیت مشترکہ حکمت عملی سے گریز کیا اور یکطرفہ کارروائی کرنا کیوں ضروری سمجھا ۔ خود ایران کو بھی حالات کی کشیدگی کو سمجھ کر مفاہمت اور دو طرفہ تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔

کیونکہ اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دو طرفہ تعلقات کی خرابی کا عملی نتیجہ فرقہ ورانہ کشیدگی کو پیدا نہ کرے ۔دونوں اطراف میں خرابی پیدا نہیں ہونی چاہیے اورکسی بھی سطح پر کوئی پراکسی جنگ نہیں ہونی چاہیے ۔

دونوں اطراف سے مفاہمت کا راستہ ہی ترجیح ہونی چاہیے ۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور اس سے جڑے علاقوں میں متعدد علیحدگی پسند تنظیمیں گزشتہ کئی برس سے متحرک ہیں ان میں بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبرشن آرمی شامل ہیں ۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ان علیحدگی پسند تنظیموں سے کئی جڑے عسکریت پسند ایران میں پناہ رکھے ہوئے ہیں۔اصل میں دونوں اطراف مشترکہ چیلنج پیدا کرنے والے عسکریت پسند آباد ہیں اور ان کا علاج تلاش کرنا مشترکہ حکمت عملی کے تحت ہی ممکن ہوسکتا ہے۔

کیونکہ ایک ہی وقت میں بھارت، افغانستان اورایران سے تعلقات کی خرابی کا پیدا ہونا یا اسے قائم رکھنا کسی بھی طور پر ہماری نہ تو حکمت عملی ہونی چاہیے اور نہ ہی ہمیں اس کو بنیاد بنانا چاہیے ۔کیونکہ جو لوگ ہمیں غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیں نئے نئے تنازعات یا جنگوں یا کشیدگی میں الجھا کر ہم پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں ۔

پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ہم سے علاقائی ممالک کے تناظر میں مہم جوئی چاہتے ہیں ان سے بھی ہمیں بچ کر آگے بڑھنا ہے ۔ردعمل کی سیاست کے مقابلے میں ہمیں زیادہ ٹھہراؤ کی سیاست اور فیصلے درکار ہیں کیونکہ ہمارے داخلی حالات زیادہ گھمبیر ہیں اور ہمیں کسی بھی سطح پر کوئی مہم جوئی اختیار نہیں کرنی چاہیے ۔

ہمیں زیادہ سے زیادہ علاقائی سیاست میں ڈپلومیسی یا سفارت کاری کے محاذ پر سرمایہ کاری درکار ہے جو سیاسی بنیادوں پر درست علاقائی سیاست کے فریم ورک کو مضبوط بنانے او ربہتر تعلقات میں موثر کردار ادا کرسکے ۔

کیونکہ تمام علاقائی ممالک بشمول پاکستان ہم سب کے سامنے مسائل کے حل کے لیے سفارت کاری کے راستے کو ہی بنیاد بنا کر تعلقات میں موجود بگاڑ یا کشیدگی کو کم کیاجاسکتا ہے ۔ویسے بھی ہمارے مفاد میں نہیں کہ علاقائی ممالک کی سطح پر کوئی ایسی تکون سامنے آئے جس میں بھارت، ایران اور افغانستان پاکستان مخالف ایجنڈے میں ساتھ کھڑے ہوں ۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیسے آگے بڑھنا ہے ۔ ہم اصولی طور پر جنگوں یا تنازعات سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے جہاں ہم کو علاقائی سیاست میں ایک پرامن اور مفاہمت سمیت سیاست اور معیشت کی بنیاد پر مشترکہ فریم ورک درکار ہے۔

جہاں جہاں علاقائی سطح پر دہشت گردی سمیت چیلنجز موجود ہیں اور ان کے تانے بانے دیگر علاقائی ممالک سے ہیں تو ان میں دہشت گردی کے خاتمہ میں مشترکہ میکنزم درکار ہے ۔اس کے لیے بنیادی مسائل کا حل علاقائی سطح پر موجود تمام سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، معاشی اور سیکیورٹی سمیت آرٹ اینڈ کلچر کی بنیاد پر قائم مشترکہ فورمز کو متحرک اور فعال بنا کر بداعتمادی کے ماحول کو ختم کرنے سے ہے ۔

پاکستان اگر علاقائی سطح پر کچھ مثبت کرنا چاہتا ہے اور نئے سیاسی و معاشی امکانات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اسے اپنے داخلی معاملات جن میں سیکیورٹی ، دہشت گردی ، سیاست ، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور حکمرانی سے جڑے مسائل سنجیدگی سے غو رکرکے اپنے داخلی استحکام کو بنیاد بنانا ہوگا ۔ ایک مضبوط سیاست ، جمہوریت ، معیشت اور سیکیورٹی کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی ۔

QOSHE - نیشنل سیکیورٹی اور علاقائی تعلقات - سلمان عابد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نیشنل سیکیورٹی اور علاقائی تعلقات

9 1
23.01.2024

[email protected]

پاکستان کی داخلی سلامتی، سیکیورٹی اور علاقائی ممالک سے تعلقات کی کنجی ہی ہمیں ایک مضبوط، مربوط اور مستحکم یا پرامن پاکستان کی طرف لے جانے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔

آج کی عالمی سیاست یا جدیدیت سے جڑی سیاست میں کسی بھی ریاست کی اہمیت اسی صورت میں دیکھنے کو مل سکتی ہے جب ہم داخلی محاذ پر ایک مستحکم سیاسی و معاشی طاقت کے طور پر خود کو منواسکیں گے ۔ہمیں دو مختلف محاذوں پرمسائل کا سامنا ہے۔

اول، داخلی محاذ پر امن وامان ، سیکیورٹی ، انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کی لہر یا واقعات کی بنیاد پر مضبوط سیاسی و معاشی استحکام کے سیاہ بادل موجود ہیں ۔ دوئم، علاقائی معاملات میں بھارت، افغانستان اور اب ایران کے ساتھ معاملات کی خرابی نے ہمارے علاقائی حالات میں کشیدگی کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے ۔

ایک طرف ہم جیو معیشت اور جیو تعلقات کو بنیاد بنا کر اپنے لیے سیکیورٹی کا مضبوط نظام ، دہشت گردی کا خاتمہ اور دوسری طرف علاقائی سطح پر موجود ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد پر نئے معاشی امکانات کو پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن ہماری خواہش اور زمینی حقایق میںفرق نظر آتا ہے کیونکہ مسائل کی گہرائی زیادہ پیچیدہ ہے ۔

معاملات کی بہتری کسی جادو کی چھڑی سے ممکن نہیں بلکہ ہمیں زیادہ سنجید گی کے ساتھ داخلی مسائل کا احاطہ کرنا اور ایک مضبوط پالیسی سمیت حکمت عملی کی بنیاد درکار ہے ۔

داخلی اور علاقائی تعلقات کی خرابی کے براہ راست تعلق کو کسی بھی سطح پر سیاسی تنہائی میں نہ دیکھا جائے اور ان دونوں کا باہمی تعلق ہی ہمیں کسی مسئلہ کے حل کی طرف لے جاسکتا ہے ۔علاقائی استحکام اور بہتر تعلقات ہماری سیاسی و معاشی سمیت سیکیورٹی ضرورت ہے اور یہ عمل اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب معاملات دو طرفہ ہوں کیونکہ کوئی بھی ملک تن تنہا معاملات کو درست کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔

ہماری قومی سیکیورٹی پالیسی کا ایک اہم نقطہ اسی کو بنیاد بناتا ہے کہ ہمیں علاقائی ممالک بشمول بھارت........

© Express News


Get it on Google Play