[email protected]

پاکستان میں انتخابی مہم کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں ۔ انتخابات کا منظرنامہ بھی واضح ہورہا ہے، جس سے ہم آہندہ کے سیاسی و معاشی استحکام کے مناظر دیکھ سکیں گے۔

عمران خان، شاہ محمود قریشی اور بشریٰ بی بی کو سائفر اور توشہ خانہ کیس میں سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ ان قانونی فیصلوں پر قانونی سے زیادہ سیاسی بحث جاری ہے۔

بہرحال پہلے سے موجود سیاسی تقسیم مسلسل گہری ہورہی ہے۔یہ محض آج کے حالات نہیں ہیں بلکہ ماضی کا تسلسل ہیں۔بس ہمیں کردار بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ کوئی بھی کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔

آج کے عمران خان ہوں یا ماضی کے دیگر سیاست دان بنیادی طور پر اپنی غلطیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری قومی سیاست کا مزاج، ٹکراؤ، تناؤ ، محاذ آرائی یا ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ کا شکار رہا اور اس کا بڑا نتیجہ سیاسی و جمہوری بحران کی صورت مل رہا ہے۔

اس وقت پی ٹی آئی عتاب کا شکار ہے۔ وہ بطورسیاسی جماعت الیکشن سے باہر ہے۔ انتخابی عمل سے بے دخلی یقینی طور پر پی ٹی آئی کی اپنی سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز سمیت غیر سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن عام ووٹر کو یہ سب کچھ سمجھانا مشکل ہے ۔ وہ کئی طرح کے سوالیہ نشانات کو اٹھاتا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ان حالات کا سیاسی و معاشی مستقبل کیا ہوگا۔کیونکہ انتخابات کے نتیجے میں بھی کمزور یا مخلوط حکومت آئے گی، کیا وہ یہ صلاحیت رکھ سکے گی کہ ان تمام معاملات سے موثر انداز میں نمٹ سکے۔

کیونکہ اگر حکومت کی عددی تعداد مستحکم نہیں ہوگی اور کوئی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی تو مخلوط یا کم ووٹوں کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کیسے سیاسی تقسیم سے نمٹ سکے گی ۔ یہ کہنا کہ پی ٹی آئی کے لوگ کہیں گم ہوکر رہ جائیں گے یا پارٹی عملی بنیادوں پر ختم کردی جائے گی اور نئی مخلوط حکومت کو کسی بھی سطح پر کوئی بھی مزاحمت نہیں ملے گی ، ممکن نہیں ہوسکے گا۔

نئی حکومت کو ٹکراؤ کی پالیسی ورثہ میں ملے گی اور جو انتخابات کے نتائج کا سیاسی بوجھ ہوگا وہ بھی نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا۔اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حکومت جو کہ مسلم لیگ ن کی ہوگی وہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنالے گی تو پھر ہمیں اس بھاری مینڈیٹ کی صورت میں مسلم لیگ ن کی پالیسی میں مفاہمت کم نظر آئے گی۔ اسی بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ جو بھی حکومت ہوگی وہ مخلوط بھی ہوگی اور کمزور بھی ۔

مسئلہ محض کسی ایک حکومت یا سیاسی جماعت کی کامیابی یا ناکامی کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر سیاسی اور جمہوری نظام کا ہے ۔ کیونکہ اس وقت ملک کو دیکھیں تو یہاں جمہوری نظام پہلے ہی سے کئی خطرات کے سائے میں ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول ہم ایک ہائبرڈ یا کنٹرولڈ جمہوری نظام کے سائے میں ہیں ۔

لگتا ہے کہ جو اس وقت سیاسی حالات میں بڑی تقسیم ہے وہ گہری بھی ہے اور ایک فیول کا درجہ رکھتی ہے جو حالات کو مزید بگاڑ کی طرف لے کر جاسکتی ہے ۔

اصولی طور پر تو پاکستان کو بطور ریاست اس وقت ایک بڑے استحکام کی سیاسی حکمت عملی درکار ہے ۔ ایسی حکمت عملی جو سیاسی یا ریاستی محاذ پر جو تناؤ یا ٹکراؤ یا جو سیاسی دشمنی یا مقابلہ بازی کے رجحان کو فوقیت دے رہی ہے اس کا خاتمہ ممکن ہوسکے یا اس کی شدت میں کمی لائی جاسکے ۔لیکن یہاں مقابلہ بازی، ضد ، انا اور سیاسی تقسیم یا نفرت میں ہم اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ خود ہی حالات کو بگاڑنے کے کھیل میں حصہ دار بنے ہوئے ہیں۔

جو بھی مفاہمت کی بات کرتا ہے تو اسے ایک سیاسی کمزوری کے طور پر دیکھا جاتا ہے یا مفاہمت کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ یہ حکمت عملی درست نہیں اور نہ ہی حالات کو سدھارنے میں کارگر ہوسکے گی ۔سیاسی یا ریاستی و معاشی بحران کو ماضی کے فریم ورک سے باہر نکل کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

اگر ہم نے انتخابات کے بعد بھی اسی طرح کی محاذآرائی اور ٹکراؤ کی پالیسی کے تحت ریاستی و حکومتی نظام کو ہی چلانا ہے تو پھر حالات کے بگاڑ کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ممکن ہے کہ وقتی طور پر ہم وہ سیاسی نتائج حاصل کرلیں جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ان نتائج سے مستقبل کی پیش قدمی ممکن نہیں ہوگی۔

مفاہمت کا یہ عمل محض سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں دیگر فریقین کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ ہماری آج کی اسٹیبلشمنٹ کو نظرانداز کرکے معاملات کی درستگی ممکن نہیں۔

اس لیے سیاسی و غیر سیاسی سب کو ہی مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے ہماری سیاسی و غیر سیاسی سطح پر ’’ نئے رولزآف گیمز ‘‘ پر اتفاق کرتے ہوئے دس سے پندرہ برس کی منصوبہ بندی یا روڈ میپ درکار ہوگا جو ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دے سکے گا۔لیکن ایک طرف مسلم لیگ ن، جے یو آئی، عوامی نیشنل پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی کشیدگی ہے تو دوسری طرف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں بھی سیاسی فاصلے بڑھ رہے ہیں اور بلاول بھٹو کے لب و لہجہ میں کافی سختی نظر آتی ہے اور اگر یہ ہی کھیل سختی اور عدم قبولیت کا جاری رہتا ہے تو مفاہمت کی پالیسی کیسے ممکن ہوگی۔

خاص طور پر جب ایک جماعت ہی انتخابی عمل سے باہر کردی گئی ہو تو مفاہمت کے امکانات کم اور بگاڑ کے زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے میثاق جمہوریت یا میثاق معیشت یا اسٹیبلشمنٹ کی اپنی بالادستی کے کھیل میں جمہوری نظام نئے خطرات میں داخل ہورہا ہے جو زیادہ فکر مندی کا پہلو ہے ۔

QOSHE - پرانے کھیل کے نئے نتائج - سلمان عابد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پرانے کھیل کے نئے نتائج

7 2
02.02.2024

[email protected]

پاکستان میں انتخابی مہم کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں ۔ انتخابات کا منظرنامہ بھی واضح ہورہا ہے، جس سے ہم آہندہ کے سیاسی و معاشی استحکام کے مناظر دیکھ سکیں گے۔

عمران خان، شاہ محمود قریشی اور بشریٰ بی بی کو سائفر اور توشہ خانہ کیس میں سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ ان قانونی فیصلوں پر قانونی سے زیادہ سیاسی بحث جاری ہے۔

بہرحال پہلے سے موجود سیاسی تقسیم مسلسل گہری ہورہی ہے۔یہ محض آج کے حالات نہیں ہیں بلکہ ماضی کا تسلسل ہیں۔بس ہمیں کردار بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ کوئی بھی کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔

آج کے عمران خان ہوں یا ماضی کے دیگر سیاست دان بنیادی طور پر اپنی غلطیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری قومی سیاست کا مزاج، ٹکراؤ، تناؤ ، محاذ آرائی یا ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ کا شکار رہا اور اس کا بڑا نتیجہ سیاسی و جمہوری بحران کی صورت مل رہا ہے۔

اس وقت پی ٹی آئی عتاب کا شکار ہے۔ وہ بطورسیاسی جماعت الیکشن سے باہر ہے۔ انتخابی عمل سے بے دخلی یقینی طور پر پی ٹی آئی کی اپنی سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز سمیت غیر سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن عام ووٹر کو یہ سب کچھ سمجھانا مشکل ہے ۔ وہ کئی طرح کے سوالیہ نشانات کو اٹھاتا ہے........

© Express News


Get it on Google Play