[email protected]

نواز شریف نے اپنے سیاسی جانشین کے طور پر مریم نواز شریف صاحبہ کو بہت پہلے ہی سیاسی میدان میں کھڑا کردیا تھا اور اب ان کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تقرری یقینی طور پر نواز شریف کے لیے باعث اطمینان ہوگی۔

مریم نواز شریف ایک متحرک اور فعال شخصیت کی مالک ہیں۔ جارحانہ سیاست بھی ان کی خوبیوں میں شامل ہے ۔ یقینی طور پر وہ ایک روایتی وزیر اعلیٰ کے بجائے ایک غیر معمولی اور بہتر وزیر اعلیٰ کے طور پر خود کو پیش کرنے کی کوشش کریںگی ۔مریم نواز شریف صاحبہ کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد جو پہلا خطاب تھا وہ بھی کافی بہتر تھا۔

مسلم لیگ ن اور مریم نواز شریف صاحبہ کے سامنے ایک مضبوط حزب اختلاف بھی موجود ہے ۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹ کے اندر بھی اور پارلیمنٹ سے باہر بھی ایک بڑی سیاسی قوت ہے جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی حالیہ انتخابات کی ساکھ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ دیگر جماعتیں بھی احتجاج کر رہی ہیں۔اس لیے سب سے بڑا چیلنج مریم نواز صاحبہ کا بطور وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی کی مضبوط حزب اختلاف پر مبنی سیاست سے نمٹنا ہوگا ۔ مریم نواز صاحبہ نے یقینی طور پر حزب اختلاف کو دعوت دی کہ ہم مل کر کام کریں گے مگر ہماری سیاسی تاریخ کا یہ ہی المیہ ہے کہ مل کر کام کرنے کی خواہش اپنی جگہ مگر عملی سطح پر ہم ایک دوسرے کے سیاسی قد یا وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

اس وقت ایک بڑا مسئلہ صوبائی سطح پر بری طرز حکمرانی کا ہے ۔ یہ مسئلہ محض پنجاب تک محدود نہیں بلکہ چاروں صوبائی حکومتوں کی طرز حکمرانی پر پہلے سے ہی کئی سوالیہ نشان ہیں یا ان پر سخت تنقید کی جاتی ہے ۔پنجاب میں ایک بھاری بھرکم بیوروکریسی اور حکومتی اداروں کے حجم کی سطح پر بے پناہ اضافہ اور صوبے کو کمپنیوں یا اتھارٹیوں کی بنیاد پر چلانے کی سیاسی روش پہلے سے ہی موجود ہے۔

یہ سوچ شہباز شریف ہی کی تھی اور اس پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہی ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کی خود مختاری اور مضبوطی کی بجائے صوبائی مرکزیت کے قائل تھے اور ان کا بڑا انحصار سیاسی افراد یا نمایندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی سے جڑا ہوا تھا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پنجاب میں بیشتر ارکان اسمبلی شہباز شریف کی طرز حکمرانی سے مختلف رائے رکھتے تھے اور اس کا اظہار وہ نواز شریف سے بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہتے تھے۔

اب دیکھنا ہوگا کہ مریم نواز صاحبہ کا سیاسی جھکاؤ سیاسی نمایندوں یا پارٹی پر ہوتا ہے یا وہ بھی شہباز شریف ماڈل ہی کے تحت بیوروکریسی پر انحصار کرکے آگے بڑھتی ہیں ۔ مرکز کی سطح پر شہباز شریف وزیر اعظم ہوتے ہیں تو یقینی طور پر جہاں پنجاب کی بیوروکریسی مریم نواز صاحبہ کی طرف دیکھے گی تو وہیں ان کی بڑی نظریں وزیر اعظم کے طور پر شہباز شریف کی سوچ کے ساتھ بھی جڑی ہوں گی۔

پنجاب کی بیوروکریسی ایک مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں خود کو کمزور کرنے یا اپنے اختیارات و مفادات پر آسانی سے سمجھوتہ نہیں کرے گی ۔شہبازشریف اس بیوروکریسی کے مزاج کو سمجھتے ہیں اور اب مریم نواز صاحبہ کا بڑا چیلنج یہ بھی ہوگا کہ وہ ان چیلنجز کی موجودگی میں کیسے بیوروکریسی کی مدد سے اپنے انداز میں حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنیادوں پر چلاتی ہیں۔

اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مریم نواز صاحبہ کی سیاسی سوچ ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کی ہوگی یا وہ بھی شہبازشریف ماڈل ہی کی بنیاد پر مقامی حکومتوں کو نظرانداز کرکے اپنی حکمرانی کے نظام کو چلانا چاہتی ہیں ۔

پنجاب میں حکمرانی کے اچھے نظام کے لیے ایک بڑا اصلاحاتی ایجنڈا درکار ہے ۔کیونکہ پنجاب میں جو بھی غیر معمولی حالات ہیں ان میں غیر معمولی اقدامات ہی درکار ہوں گے۔پولیس اور بیوروکریسی کے نظام سمیت انصاف، تعلیم اور صحت کی سطح پر بہت سی غیر معمولی تبدیلیاں درکار ہیں ۔کچھ تبدیلیوں کی نوعیت میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات درکار ہیں جہاں بیوروکریسی کے کنٹرو ل کی جگہ عوامی مفادات کو ہی تحفظ ملنا چاہیے۔

لوگ واقعی مہنگائی اور معاشی بدحالی سمیت اداروں کی عدم کارکردگی اور عدم شفافیت سے نالاںہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بنیادی سہولیات اور انصاف میسر نہیں ۔ ایک طرف مہنگائی کو کنٹرول کرنا اور دوسری طرف نئی نسل کے لیے نئے معاشی مواقع اور امکانات کو پیدا کرنا بڑے چیلنجز ہیں ۔ یہ پالیسی کہ ہم صرف محض خیراتی یا چیرٹی جیسے طرز کے پروگراموں کو بنیاد بنا کر حکمرانی کا نظام چلانا چاہتے ہیں وہ کارگر حکمت عملی نہیں۔

خاص طور پر ایک طرف سرکاری اسپتالوں کی حالت زار اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی تو دوسری طرف نجی شعبہ میں کام کرنے والے اسپتال ہوں یا تعلیمی ادارے ان کو ریگولیٹ کرنے والے اداروں کی نااہلی یا ان کی کرپشن نے لوگوں کا سخت استحصال کیا ہے۔

نجی شعبہ جات کو کھلی چھٹی ملنا اور پہلے سے موجود ریگولیٹ اداروں کی عدم فعالیت یا عد م شفافیت نے ان نجی شعبوں کو بے لگام کر رکھا ہے ۔کوئی ایسی پالیسی نہیں جو نجی شعبوں میں چلنے والے تعلیمی یا صحت کے اداروں کو جوابدہ بناسکے یا ان کا احتساب کیا جاسکے کہ وہ کیسے بے لگام ہوکر اپنا نظام چلارہے ہیں ۔ معاشی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے چھوٹی چھوٹی مقامی صنعتوں کو فروغ دینا ہوگا تاکہ نئے روزگار پیدا ہوسکیں۔

اسی طرح مریم نواز صاحبہ کے بقول وہ کرپشن ، بدعنوانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی مگر یہ ایک بڑا مگر مچھ ہے اور جو اس وقت عملًا مافیاز کی حکمرانی پر مبنی تمام قوتوں میں باہمی گٹھ جوڑ ہے اس کو توڑنا آسان نہیں لوگوں کو جس برے انداز سے ریاستی و حکومتی مدد کی بنیاد پر لوٹاجا رہا ہے اس کا کوئی علاج فی الحال ممکن نظر نہیں آتا ۔

18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکمرانی میں زیادہ سیاسی ، انتظامی و مالی اختیار یا وسائل کی موجودگی بھی صوبائی حکومت کی صوابدید پر ہے ۔ اس لیے حکمرانی کو منصفانہ اور شفاف بنانا صوبائی حکومت ہی کی ذمے داری ہے۔

QOSHE - مریم نواز صاحبہ کے لیے سیاسی چیلنجز - سلمان عابد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مریم نواز صاحبہ کے لیے سیاسی چیلنجز

13 8
01.03.2024

[email protected]

نواز شریف نے اپنے سیاسی جانشین کے طور پر مریم نواز شریف صاحبہ کو بہت پہلے ہی سیاسی میدان میں کھڑا کردیا تھا اور اب ان کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تقرری یقینی طور پر نواز شریف کے لیے باعث اطمینان ہوگی۔

مریم نواز شریف ایک متحرک اور فعال شخصیت کی مالک ہیں۔ جارحانہ سیاست بھی ان کی خوبیوں میں شامل ہے ۔ یقینی طور پر وہ ایک روایتی وزیر اعلیٰ کے بجائے ایک غیر معمولی اور بہتر وزیر اعلیٰ کے طور پر خود کو پیش کرنے کی کوشش کریںگی ۔مریم نواز شریف صاحبہ کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد جو پہلا خطاب تھا وہ بھی کافی بہتر تھا۔

مسلم لیگ ن اور مریم نواز شریف صاحبہ کے سامنے ایک مضبوط حزب اختلاف بھی موجود ہے ۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹ کے اندر بھی اور پارلیمنٹ سے باہر بھی ایک بڑی سیاسی قوت ہے جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی حالیہ انتخابات کی ساکھ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ دیگر جماعتیں بھی احتجاج کر رہی ہیں۔اس لیے سب سے بڑا چیلنج مریم نواز صاحبہ کا بطور وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی کی مضبوط حزب اختلاف پر مبنی سیاست سے نمٹنا ہوگا ۔ مریم نواز صاحبہ نے یقینی طور پر حزب اختلاف کو دعوت دی کہ ہم مل کر کام کریں گے مگر ہماری سیاسی تاریخ کا یہ ہی المیہ ہے کہ مل کر کام کرنے کی خواہش اپنی جگہ مگر عملی سطح پر ہم ایک دوسرے کے سیاسی قد یا وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

اس وقت ایک بڑا مسئلہ صوبائی سطح........

© Express News


Get it on Google Play