21 فروری کو ’ عالمی یوم مادری زبان ‘ منایا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس دن کو منائے جانے کا پس منظر ہمارے ملک میں پیش آنے والے ایک ناخوش گوار واقعہ ہے۔

پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں جو طوائف الملوکی پیدا ہوئی، اسی کی ایک کڑی 1952ء میں پیش آنے والا یہ واقعہ بھی تھا، جس میں ڈھاکا میں طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ’ بنگالی کو بھی اردو کے ساتھ پاکستان کی قومی زبان بنایا جائے! ‘ اور اس جلوس پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں چار طلبا جان سے گئے اور اس کے بعد یہ مسئلہ حل کیا ہوتا، الٹا مزید تلخیاں گُھلا گیا۔

پھر مجبوراً اردو کے متوازی بنگالی زبان کو بھی پاکستان کی ’ قومی زبان‘ کا درجہ دے دیا گیا، لیکن اس کے باوجود بھی 1971ء میں ہمارے ملک کا اکثریتی حصہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلا دیش بن گیا۔

1999ء میں بنگلا دیشی حکومت کی کوششوں سے عالمی سطح پر اس دن کو تسلیم کیا گیا اور تب سے 21 فروری ’ عالمی یوم مادری زبان‘ قرار پایا۔ کہا یہ گیا کہ اس دن مادری زبان کے حق کے لیے لوگوں نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ اگر غور کیجیے تو یہ مسئلہ تو ’مادری زبان‘ کا تھا ہی نہیں، بلکہ قومی زبان کا تھا۔ مشرقی پاکستان سے ان کی مادری زبان بنگالی کبھی نہیں چھینی گئی۔

قیام پاکستان کے چھے ماہ بعد جب پہلی بار اردو کے ساتھ بنگلا زبان کو قومی درجہ دینے کا مطالبہ ہوا، تب قائداعظم نے ڈھاکا جا کر یہ واضح کر دیا تھا کہ ’پاکستانی کی ریاستی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی، یہاں بانیٔ پاکستان سے ادھار کھائے ہوئے بہت سے بزعم خود دانشوَر انھیں بے جا تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، 21 فروری ہو یا 16 دسمبر (یوم سقوط ڈھاکا)، یہی کہا جاتا ہے کہ قائداعظم نے یہ ’غلطی‘ کی تھی۔

یہ ایک بالکل ایسی ہی خلاف حقیقت بات ہے کہ جیسا 21 فروری کے حادثے کو ’مادری زبان‘ کے لیے جانیں دینے کا واقعہ سمجھنا، کیوں کہ قائد نے ساتھ یہ بھی تو کہا تھا کہ پاکستان کی ریاستی یا قومی زبان تو ایک ہی ہوگی اور وہ اردو ہے، لیکن اس کے ساتھ ہر صوبہ اپنی اپنی ایک زبان بھی سرکاری طور پر رکھ سکتا ہے۔ یعنی انھوں نے یا ہماری ریاست نے کبھی بنگالیوں سے ان کی مادری زبان کا حق نہیں چھینا۔

سارا تنازع مرکزی اور قومی سطح پر ایک زبان کے نفاذ اور اس کے قومی درجے کا تھا، جو بلاشبہ صرف اردو ہی کو مل سکتا تھا۔ اس کا پوری تحریک پاکستان میں واضح اور بھرپور پس منظر بھی موجود تھا، لیکن کیا کیجیے ہمارے نام نہاد محققین پہلے سے طے کر کے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیںکہ انھیں تحقیق کے نام پر تاریخی حقائق تڑوڑ مروڑ کر صرف اپنی محدود سوچ ہی کو حقیقت بنا کر پیش کرنا ہے۔

ہم بنگالیوں کے ساتھ ہر زیادتی پر بات کر سکتے ہیں۔ ہمیں تسلیم ہے کہ ہم نے ان کا استحصال کیا، انھیں ان کے وسائل پر اختیار نہیں دیا، انھیں اپنے برابر نہ سمجھا اور بہت سے بنیادی شہری اور جمہوری حقوق سے بھی محروم رکھا۔ یہ سب تلخ حقائق ہیں اور ہمیں اپنی ان غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے، لیکن جہاں قومی زبان کی بات آجاتی ہے، یہاں بنگالی زبان کو اردوکے برابر مرکزی سطح پر درجہ دینا 100 فی صد غیر منصفانہ اور غیر منطقی مطالبہ تھا۔ اس لیے کسی بھی مرحلے پر اس مطالبے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

ہمیں کبھی یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان کی تحریک پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی جدوجہد تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی 30 مسلم نشستوں میں سے 17 نشستیں مسلمان اقلیتی صوبوں سے تھیں، جو کبھی پاکستان کا حصہ نہ بن سکے، جب کہ چھے بنگال اور چھے پنجاب کے ساتھ ایک نشست سندھ کی تھی، جو پاکستان کے جغرافیے میں شامل ہوئے۔

دوسری سچائی یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران اسلام کے ساتھ جس چیز پر ساری تحریک کا دارومدار تھا، وہ اردو ہی تھی اور قیام پاکستان سے پہلے کبھی کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ اردو کے ساتھ فلاں زبان قومی یا مرکزی زبان ہوگی۔ برصغیر کے مسلمانوں کے جدا تشخص کو مذہب کے بعد سب سے بڑا جواز اردو نے دیا اور اسے ہی قبول کر کے پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کے مطالبے کو ووٹ دیا۔

اب اگر ’منزل‘ پر پہنچ کر کوئی فریق اس سے مُکرتا ہے تو تاریخ کے کٹہرے میں جواب دہ ہے اور اگر کوئی حاکم اس وعدے سے روگردانی کرتا ہے، تو پھر یہی باز پُرس اس سے بھی ہے۔ جیسا کہ 1952ء کے واقعے کے بعد یہ روگردانی کی بھی گئی اور 1956ء اور 1962ء کے دستور میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا، جو کہ تحریک پاکستان کے بنیادی منشور اور وعدے کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

ہمارے جو بے رحم احباب، پاکستان کو تخلیق کرنے والی ’ اردو‘ ہی کو پاکستان توڑنے کا ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں، وہ تحریک پاکستان کی سچائیوں کی طرح 1947ء کے بعد کی یہ حقیقتیں بھی فراموش کر جاتے ہیں کہ اگر مشرقی پاکستان صرف ہمارے ’اردو‘ قومی زبان بنانے کے اصرار کی وجہ سے ہم سے الگ ہوا، تو پھر ہم نے تو ان کا یہ مطالبہ مان لیا تھا، لیکن اس کے باوجود شکایتیں بڑھیں اور پھر وہ ہم سے جدا ہوگئے۔

ان ’دانشوَروں‘ سے کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ آخر آپ سب کی تان مظلوم اردو زبان ہی پر کیوں ٹوٹتی ہے؟ شاید اس لیے کہ اردو کو اس ملک کی قومی زبان ہونے کے باوجود لاوارث سمجھ لیا گیا ہے، تبھی بہت آسانی سے سب اپنے اپنے ذہنی تعصب اور تنگ نظری کو اردو کے خلاف نکال کے اپنی اصل غلطیوں پر پردہ ڈال جاتے ہیں کہ دراصل جن کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا تھا۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان اردو نہیں، بلکہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے دولخت ہوا۔۔۔! اس لیے اردو کو پاکستان ٹوٹنے کا سبب قرار دینے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے تاریخی سچائیاں بہت تلخ ہیں، اگر وہ منظر عام پر آجائیں، تو حکام کے ساتھ عوام اور ایسے حلقے جو باشعور، صاحب الرائے، اہل علم وفن، اساتذہ، صحافی، شاعر، دانشوَر اور لکھاری ہیں، انھیں بھی اپنا اپنا محاسبہ کرنا پڑے گا، کیوں کہ انھوں نے بھی تو مشرقی پاکستان کے سانحے سے کچھ نہیں سیکھا۔

ان کے ذہن میں آج بھی پاکستان کے مختلف صوبوں اور قوموں کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ وہ بھی صرف اپنے طبقے اور حلقے ہی کو ’ معتبر‘ جانتے ہیں اور دوسروں کے لیے ذرا بھی کشادگی پیدا نہیں کر پاتے۔ اس لیے یہ بہت آسان ہوتا ہے کہ اردو کے خلاف جو کینہ ان کے دل ودماغ میں ہے، وہ بھی ظاہر ہوجائے اور ’سقوط ڈھاکا‘ کی اصل وجوہات سے پردہ پوشی بھی ہو جائے۔

QOSHE - اکیس فروری اور اردو - رضوان طاہر مبین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اکیس فروری اور اردو

11 0
03.03.2024

21 فروری کو ’ عالمی یوم مادری زبان ‘ منایا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس دن کو منائے جانے کا پس منظر ہمارے ملک میں پیش آنے والے ایک ناخوش گوار واقعہ ہے۔

پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں جو طوائف الملوکی پیدا ہوئی، اسی کی ایک کڑی 1952ء میں پیش آنے والا یہ واقعہ بھی تھا، جس میں ڈھاکا میں طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ’ بنگالی کو بھی اردو کے ساتھ پاکستان کی قومی زبان بنایا جائے! ‘ اور اس جلوس پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں چار طلبا جان سے گئے اور اس کے بعد یہ مسئلہ حل کیا ہوتا، الٹا مزید تلخیاں گُھلا گیا۔

پھر مجبوراً اردو کے متوازی بنگالی زبان کو بھی پاکستان کی ’ قومی زبان‘ کا درجہ دے دیا گیا، لیکن اس کے باوجود بھی 1971ء میں ہمارے ملک کا اکثریتی حصہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلا دیش بن گیا۔

1999ء میں بنگلا دیشی حکومت کی کوششوں سے عالمی سطح پر اس دن کو تسلیم کیا گیا اور تب سے 21 فروری ’ عالمی یوم مادری زبان‘ قرار پایا۔ کہا یہ گیا کہ اس دن مادری زبان کے حق کے لیے لوگوں نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ اگر غور کیجیے تو یہ مسئلہ تو ’مادری زبان‘ کا تھا ہی نہیں، بلکہ قومی زبان کا تھا۔ مشرقی پاکستان سے ان کی مادری زبان بنگالی کبھی نہیں چھینی گئی۔

قیام پاکستان کے چھے ماہ بعد جب پہلی بار اردو کے ساتھ بنگلا زبان کو قومی درجہ دینے کا مطالبہ ہوا، تب قائداعظم نے ڈھاکا جا کر یہ واضح کر دیا تھا کہ ’پاکستانی کی ریاستی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی، یہاں بانیٔ پاکستان سے ادھار کھائے ہوئے........

© Express News


Get it on Google Play