اپنی زندگی میں ہم بہت سی چیزوں میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دوسروں کی رائے، مرضی اور کبھی تو جبر کو بھی جگہ دیتے ہیں۔ چوں کہ آج کل فرد کی انفرادی آزادی کی بات کافی زوروں پر ہے۔

’ میری مرضی‘ کا پرچار کیا جاتا ہے اور اس خیال کو فروغ دیا جاتا ہے کہ آخر ’ دوسرے‘ ہوتے کون ہیں، ہماری زندگیوں میں مخل ہونے والے؟ ایک لحاظ سے بات تو یہ بالکل درست ہے۔

ایک دائرے میں تو ہر فرد کی اپنی زندگی ہوتی ہے، اس کی پسند و نا پسند، ترجیحات، خواب اور خواہشات ہیں۔ یقیناً اُسے ضرور ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے، لیکن اس مرضی میں بھی ایک توازن ہونا ضروری ہے۔ سبھی کچھ دوسروں کی رضا مندی سے کرنا اور سبھی کچھ اپنی خواہش پر کرنا، دونوں ہی راستے ’ انتہا پسندی‘ کے ہیں۔

آج کل نئی نسل کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی زندگی ہے، اس لیے جو جی میں آئے کیجیے،کسی کوکوئی حق نہیں ہے کہ آپ کوکچھ کہے، آپ پر دوسروں کا ذمہ ثانوی چیز ہے۔ ایسے میں ہمارے ذہن میں خیال آتا ہے کہ زندگی میں صرف اپنی مرضی ہی کرنا اور کرتے چلے جانا تو ایک عجیب بے کیف اور خود غرضانہ سا طرزِِ فکر ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’ ہے زندگی کا مقصد اووں کے کام آنا، اس نظریے کے تحت اصل زندگی وہی ہے، جو دوسروں کے لیے ہے، کیوں کہ اپنی ضرورت اور اپنے لیے تو ہم نہ بھی کریں، تو ہم بہت کچھ کرتے رہی رہتے ہیں۔

اکثر اپنی مرضی ہی سے زندگی کے فیصلے لیتے ہیں اور اپنی مصروفیات کا انتخاب کرتے ہیں، لیکن ذرا غورکیجیے، تو کوئی بھی فرد جو صرف اپنے لیے جی رہا ہو، دوسروں کے بھلے اور فائدے کے واسطے کچھ نہ کر رہا ہو، کبھی ہمارے دل کو بھلا نہیں لگے گا، اس کے برعکس کوئی بھی ایسا فرد جس نے اپنی زندگی دوسروں کے لیے تج دی ہو، چاہے وہ بہت سارے لوگ ہوں یا زندگی میں کوئی بھی دوسرا شخص ہو۔ ہمارے والدین، رشتے دار، ہم سائے، دوست احباب یا عام لوگ۔

آپ غورکیجیے کہ اپنے کسی دوست کے لیے سوچنا، اس کے لیے مخلص ہونا اور قربانی دینا صرف اپنے لیے جدوجہد کرنے کے مقابل کتنا مختلف محسوس ہوتا ہے۔ والدین کا اولاد کے واسطے بغیر کسی صلے کی پروا کے، انھیں اچھا کھلانا پلانا اور تعلیم دینا، پھر اولاد کا اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنے والدین کے قدموں میں رہنا، اپنی تنخواہ ماں کے ہاتھ پر رکھنا، اپنے والد کی صحت کے لیے فکرمند ہونا، بہن بھائیوں کا ایک دوسرے کا درد بانٹنا، شوہر کا بیوی کا خیال رکھنا، آڑے وقت میں بیوی کا شوہر کے ہم قدم ہو جانا، استاد کا شاگردوں کے لیے محنت کرنا، شاگردوں کا اپنے استاد کی سیوا کرنا، بزرگوں کا سر پر ہاتھ رکھنا، سماج کے پَچھڑے ہوئے لوگوں کی کسی ضرورت کو پوری کرنا وغیرہ، کیا یہ سب صرف ہمارے اپنے لیے زندہ رہنے اور اپنی من مانیاں کرنے سے زیادہ دل فریب اور طبیعت کو شاد کرنے والے اعمال نہیں ہیں؟

کیا آپ نے اپنے دل میں کبھی کسی اجنبی راہ گیرکو راستہ بتانے کے بعد ایک ’ بلاوجہ‘ کی خوشی محسوس نہیں کی؟ کیا کسی ضعیف شخص کا ہاتھ تھام کر سڑک پار کرانے کے بعد آپ کو اندر سے ایک تَھپکی محسوس نہیں ہوئی؟ کیا کسی کو اچھا مشورہ دے کر،کسی کی پریشانی دورکر کے، کسی کی حوصلہ افزائی کر کے آپ کی روح نے توانائی نہیں پائی۔ یہ سب وہ اعمال ہیں کہ جو صرف اپنی مرضی کرنے سے کبھی حاصل نہیں ہوسکتے۔ زیادہ دورکیوں جاتے ہیں، ہمیں جو بھی قصے کہانیاں، افسانے، ناول، فلمیں اور ڈرامے وغیرہ پسند آتے ہیں، ان کی بیش تر کہانیوں کا تعلق ’ دوسروں‘ ہی سے ہوتا ہے، چاہے محبت کی کہانی ہو یا وفا کی ہمارے جذبات کو وہی بات چھوتی ہے، جو بے غرضی سے کسی دوسرے کے واسطے ہو۔

جب کوئی معصوم بچہ اپنی جیب خرچ سے کھلونے کے بہ جائے باپ کی دوا لیتا ہے کوئی بھوکا باپ سارا سارا دن اپنے بچوں کی کفالت کے واسطے وزن ڈھوتا رہے کوئی کسی بے زبان جانورکا احساس کرتا ہے کوئی کسی سے اپنے دل کی بات کرے کوئی کسی کو دیکھ کر جیا کرے کوئی اپنے شہر اور اپنے لوگوں کی فلاح کا غم کرے کوئی اپنی ساری عمر صرف اپنے نظریے کو سونپ دیتا ہے کوئی اپنی جوانی کے بہترین دن سماج کی بہتری کے لیے جھونک دیتا ہے، ان سب کے بارے میں پڑھتے اور سنتے ہوئے ہماری پلکیں کیوں بھیگ جاتی ہیں؟

کبھی ایسا نہیںہوتا کہ کوئی کہانی ایسی ہوکہ جس میں کوئی صرف اپنی ذات کے لیے جی رہا ہو اور اس کا مقصد صرف اپنی خواہشات اور اپنے خواب ہوں، اور وہ ہمیں متاثر بھی کرے۔ ہمارے خوابوں کی کتھا کو بھی دوسروں کا درد ’ زندہ‘ رکھتا ہے۔ کسی مزدورکے بیٹے کا اچھی جامعہ میں داخلہ ہونا، پھر اس کا تعلیمی اخراجات کے واسطے جدوجہد کرنا۔ پھر عملی زندگی میں گھر کی کفالت کا کشٹ اپنے سر لینا کہ چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم اور بڑی بہن کو بیاہ سکے۔

کیا اپنے لیے جینے سے بھی بھلا کوئی زندگی مکمل ہو سکتی ہے؟ دنیا میں کم شخصیات ایسی ہوں گی، جو صرف اپنے لیے جیئیں اور ان کے حصے میں اتنی شہرت، عزت اور نیک نامی آئے ’’ نہیں نکمی کوئی چیز قدرت کے کارخانے میں! ‘‘ تو بس جب کائنات کا ہر ذرہ اس نظام کو چلانے کے لیے اپنی خدمات دے رہا ہے، جو دراصل دوسروں کے لیے ہے، تو پھر حضرت انسان کو ہر وقت ’ میری مرضی ‘ کا درس دینا کتنا مناسب اور بہتر ہے؟

ایک کسان ہمارے لیے اناج اگاتا ہے، اسے منڈی اور تھوک بازار سے لے کر قریبی دکان اور پھر ہمارے گھر تک آنے اور اس کے روٹی بن کر ہمارے لقمہ بننے میں کتنے افراد کی مشقت ہوتی ہے، بے شک ان میں سے بیش تر اپنے اپنے حصے کا ’صلہ‘ بھی وصول کر لیتے ہیں، لیکن ہم ہیں، تو دوسروں کے مرہون منت۔ ایسے ہی کوئی بھی درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتا، اپنی چھائوں بھی وہ دوسروں کو دیتا ہے۔

سورج، چاند، ستاروں سے لے کر مختلف چوپائے اور حشرات الارض تک کوئی بھی صرف ’ میری مرضی‘ کے تحت نہیں چلتا، سبھی ایک دوسرے کے انحصار کو بہ خوشی تسلیم کرتے ہیں۔ کہیں ایسی ’خود غرضی‘ دکھائی نہیں دیتی جو آج کے ’ سرمایہ داری‘ کے پروردہ حلقوں کی جانب سے لوگوں کے ذہنوں میں ڈالی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں سماج تو سماج، خاندان تک بہت تیزی سے بکھر رہے ہیں، ہماری ذہن سازی یہ کر دی گئی ہے کہ آخرکسی اورکے لیے ایثارکیوں کیا جائے؟

دوسرا کون ہوتا ہے ہم پر اپنا حق جتانے والا؟ صرف آپ ہی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہم ہیں، دوسرے چاہیں والدین ہوں یا بیوی، بچے، سب ثانوی ہیں، صرف اپنی اپنی خواہشات ہی کو ترجیح دیں! جب کہ انسان کا مزاج مجلسی ہے، یہ جہاں اپنی من مانی کر کے بھی لطف لیتا ہے، وہیں یہ دوسروں کا حق دے کر بھی فطری اطمینان پاتا ہے۔ ’میری مرضی‘ کی کند چھری سے اگر توازن بگڑے گا، تو یہ سارا نظام تلپٹ ہو جائے گا۔

QOSHE - میری مرضی، کا مرض ! - رضوان طاہر مبین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

میری مرضی، کا مرض !

13 0
10.03.2024

اپنی زندگی میں ہم بہت سی چیزوں میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دوسروں کی رائے، مرضی اور کبھی تو جبر کو بھی جگہ دیتے ہیں۔ چوں کہ آج کل فرد کی انفرادی آزادی کی بات کافی زوروں پر ہے۔

’ میری مرضی‘ کا پرچار کیا جاتا ہے اور اس خیال کو فروغ دیا جاتا ہے کہ آخر ’ دوسرے‘ ہوتے کون ہیں، ہماری زندگیوں میں مخل ہونے والے؟ ایک لحاظ سے بات تو یہ بالکل درست ہے۔

ایک دائرے میں تو ہر فرد کی اپنی زندگی ہوتی ہے، اس کی پسند و نا پسند، ترجیحات، خواب اور خواہشات ہیں۔ یقیناً اُسے ضرور ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے، لیکن اس مرضی میں بھی ایک توازن ہونا ضروری ہے۔ سبھی کچھ دوسروں کی رضا مندی سے کرنا اور سبھی کچھ اپنی خواہش پر کرنا، دونوں ہی راستے ’ انتہا پسندی‘ کے ہیں۔

آج کل نئی نسل کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی زندگی ہے، اس لیے جو جی میں آئے کیجیے،کسی کوکوئی حق نہیں ہے کہ آپ کوکچھ کہے، آپ پر دوسروں کا ذمہ ثانوی چیز ہے۔ ایسے میں ہمارے ذہن میں خیال آتا ہے کہ زندگی میں صرف اپنی مرضی ہی کرنا اور کرتے چلے جانا تو ایک عجیب بے کیف اور خود غرضانہ سا طرزِِ فکر ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’ ہے زندگی کا مقصد اووں کے کام آنا، اس نظریے کے تحت اصل زندگی وہی ہے، جو دوسروں کے لیے ہے، کیوں کہ اپنی ضرورت اور اپنے لیے تو ہم نہ بھی کریں، تو ہم بہت کچھ کرتے رہی رہتے ہیں۔

اکثر اپنی مرضی ہی سے زندگی کے فیصلے لیتے ہیں اور اپنی مصروفیات کا انتخاب کرتے ہیں، لیکن ذرا غورکیجیے، تو کوئی بھی فرد جو صرف اپنے لیے جی رہا ہو، دوسروں کے بھلے اور فائدے کے واسطے کچھ نہ کر رہا ہو، کبھی........

© Express News


Get it on Google Play