[email protected]

ملک کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے حکم پر 4 اپریل1979کو رات کے دوسرے پہر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ بھٹو کی پھانسی کو قانونی ماہرین نے عدالتی قتل Judicial Murder قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے صدر آصف علی زرداری ریفرنس کا فیصلہ دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی بنچ نے متفقہ طور پر اس بات کا اقرار کیا کہ ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔

معروف محقق فرخ سہیل گویندی نے ’’ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کیسے ہوا حقائق سے پردہ اٹھتا ہے‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ۔ اس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں ججوں پر دباؤ کے واقعات اور جیل کے افسران کے انٹرویوز جو مختلف رسائل میں شایع ہوئے، شامل ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے منتخب وزیر اعظم کو ہر صورت سزا دینے کے ہتھکنڈوں کا پتہ چلتا ہے۔

سپریم کورٹ کی بنچ جو ذوالفقار علی بھٹو کی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہی تھی وہ چیف جسٹس انوار الحق، جسٹس ملک اکرم، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس کرم الٰہی چوہان، جسٹس قیصر خان، جسٹس وحید الدین، جسٹس محمد حلیم اور جسٹس دوراب پٹیل پر مشتمل تھی۔ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران سب سے زیادہ Vocal جج سزا کے خلاف تھا، وہ جسٹس غلام صفدر شاہ تھے۔ جسٹس صفدر شاہ کے رشتے دار جس کے گھر جج صاحب جایا کرتے تھے وہ مسٹر نصر من اللہ سی ایس پی افسر تھے۔

نصر من اللہ کی اہلیہ جسٹس غلام صفدر شاہ کی بھانجی تھیں۔ نصر من اللہ مارشل لاء کے نفاذ کے وقت بلوچستان کے چیف سیکریٹری تھے۔ ان کو اس عہدے سے ہٹادیا گیا اور Rice Milling Corporation کا چیئرمین لگا دیا گیا ۔ یہ کارپوریشن بند ہوچکی تھی ۔ پرانے رائس مل جو قومیائے گئے تھے ان کو مالکان کو واپس کرنے کا کام ہو رہا تھا۔ اس کارپوریشن کا دفترگارڈن ٹاؤن لاہور کی ایک کوٹھی میں تھا۔ سابق سیشن جج شیخ میاں محمد ارشد لکھتے ہیں کہ ان کے قریبی دوست چوہدری ظفر الٰہی کارپوریشن کے ڈائریکٹر فنانس لگے ہوئے تھے۔

نصر من اللہ نے چوہدری ظفر الٰہی کو بتایا تھا کہ انھیں بلوچستان کے چیف سیکریٹری کے عہدے سے ہٹانے کے ساتھ ایک چارج شیٹ دی گئی تھی۔جس میں سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ بطور چیف سیکریٹری وہ وزیر اعظم بھٹو کو خفیہ طور پر بلوچستان کے سیاسی حالات سے آگاہ کرتے تھے اور جو اقدامات وہاں کرتے تھے وہ بھٹو کے کہنے پر کرتے تھے۔ منتخب وزیر اعظم کو صوبے کے حالات سے آگاہ کرنا چیف سیکریٹری کی قانونی ذمے داری تھی۔ مولوی مشتاق حسین کو خدشہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو پر محمد قصوری قتل پر سازش کا الزام ثابت ہوا تو صرف عمر قید کی سزا ہوگی۔

ایسے مقدمات میں آخری سزا صرف اس لیے ہی دی جاسکتی ہے جس نے یہ قتل خود نہ کیا ہوا، جس نے سازش کی ہو یا کسی Behind the scene کام کرنے والے کو پھانسی نہیں ہوسکتی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دن جب ظفر الٰہی نصر من اللہ کے سامنے بیٹھے تھے کہ مولوی مشتاق حسین کا ٹیلی فون آگیا۔ نصر صاحب پہلے تو بہت حیران ہوئے مگر اخلاقاً جواب دیتے رہے۔ مولوی مشتاق نے کہا کہ نصر صاحب آپ کھڈے لائن پڑے ہوئے ہیں، کسی اچھی جگہ لگنا چاہیے، اگر آپ کہیں تو چیف سیکریٹری سرحد لگوا سکتا ہوں۔

مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ انھوں نے مولوی مشتاق سے پوچھا کہ آپ میرے ہمدرد کب سے ہوگئے ہیں، میری چارج شیٹ کی نوک پلک تم نے درست کی تھی۔ مولوی مشتاق نصر صاحب کا جواب سن کر سٹپٹا گیا اور کہا کہ جنرل ضیاء الحق کے حکم سے چارج شیٹ کو قانونی لحاظ سے دیکھنے کا حکم ملا تھا۔ نصر صاحب نے آخری وار کیا کہ اچھا یہ بتاؤ نہ کس حیثیت سے تمہیں اتھارٹی ہے کہ مجھے چیف سیکریٹری سرحد لگوا رہے ہو۔ اس پر مولوی نے ٹیلیفون بند کردیا۔ کچھ دن بعد جسٹس انوار الحق کا ٹیلیفون آگیا۔ یہ فون ایوانِ صدر سے آیا۔

جسٹس انوار الحق وہاں قائم مقام صدر تھے۔ جنرل ضیاء الحق عمرے کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ چوہدری ظفر الٰہی کا کہنا ہے کہ جسٹس انوار الحق کا نصر من اللہ کے پاس ٹیلیفون آیا۔ جسٹس انوار الحق اس وقت سب سے سینئر ICSسول سروس افسر تھے۔ اس لیے نصر من اللہ کا لہجہ مؤدبانہ تھا۔ جسٹس انوار الحق نے کہا کہ نصر تم آج کل اچھی پوسٹ پر نہیں ہو، میں چاہتا ہوں کہ تمہیں کوئی اچھی اسائنمنٹ مل جائے۔

کیا تم چیف سیکریٹری فرنٹیئر لگنا پسند کرو گے؟ نصر صاحب نے جواب میں کیا کہ سر میں آج کل Hot Water میں ہوں، جسٹس انوار الحق نے نصر من اﷲ کو ڈنر پر بلایا۔ جسٹس انوار الحق نے ڈنر کے موقع پر مدعا بیان کیا۔ نصر من اللہ ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ بھٹو ایک زہریلا سانپ ہے جس کو ختم کرنا ملک کے مفاد میں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جسٹس صفدر شاہ ہم سے تعاون کریں۔ نصر صاحب نے کہا سر جسٹس صفدر شاہ آپ کے جونیئر ہیں، آپ خود براہِ راست ان سے بات کیوں نہیں کرتے؟ وہ کہنے لگے کہ میری ایک مرتبہ اس موضوع پر بات ہوئی، وہ یہ بتاتے ہیں کہ مجھے بھٹو ناپسند اور برا لگتا ہے۔

بھٹو نے اپنے مفاد میں ایک ایسی آئینی ترمیم کی جس سے مجھے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے ہٹنا پڑا۔ مجھے سپریم کورٹ کے بنچ کی Optionدینے پر مجبور ہونا پڑا۔ دوسرا یہ میرے ساتھ دو تین دفعہ بھٹو نے بدتمیزی کی۔ ایک دفعہ جب وہ چیف جسٹس تھے تو بھٹو نے ٹیلیفون کیا اورکہا کہ فلاں معاملے میں فیڈرل گورنمنٹ کی پوزیشن بڑی نازک ہے اس لیے اگر وہ کیس ہمارے خلاف ہوگیا تو تمہیں ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ جج صاحب کو غصہ آیا اور انگریزی میں سخت جواب دیا۔

ایک دوسرا واقعہ جو جسٹس صفدر شاہ نے بتایا تھا کہ جب جسٹس حمود الرحمنٰ نے عدالتی اصلاحات کی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی تو وزیر اعظم نے جج صاحبان کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا اور کھانے کے دوران کچھ ججوں کے متعلق غلط الفاظ استعمال کیے۔ اس کا ججوں نے برا منایا تھا۔ خاص طور پر جسٹس صفدر شاہ نے بھٹو کو کچھ سختی سے جواب دیے، اس پر تلخ کلامی ہوئی۔

بھٹوکی بدتمیزی اور بدکلامی سے تمام ججوں کے دل خراب ہوئے۔ خاص طور پر جسٹس صفدر شاہ کے دل میں بھٹو کے لیے نفرت پیدا ہوئی۔ اس قسم کے دو واقعات بتانے کے بعد جسٹس صفدر شاہ نے انوار الحق سے کہا کہ مجھے بھی ذاتی طور پر بھٹو زہریلا لگتا ہے لیکن بطور جج میں یہ نہیں دیکھتا کہ میرے سامنے ملزم کون ہے۔ میں صرف ثبوت دیکھتا ہوں۔ آپ لوگ مجھے قانون سے قائل کریں، صرف اس وجہ سے ملزم کو کبھی سزا نہیں دے سکتا جب تک شہادت اور قانون اس کا جرم ثابت نہیں کرتا۔

صدر آصف زرداری نے اپنے سسر کی بے گناہی کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کیا اور پھر ان کا ریفرنس قبول بھی ہوا مگر دوسری طرف انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادہ اعجاز الحق سے ووٹ مانگ لیا اور انھوں نے صدارتی انتخاب میں زرداری صاحب کو ووٹ دے دیا۔ اعجاز الحق آج بھی اپنے والد کے نظریہ کا پرچار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ملک میں ایسے حالات کبھی ہونگے کہ عدالتوں سے کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہوگی؟

QOSHE - بھٹو کا عدالتی قتل - ڈاکٹر توصیف احمد خان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

بھٹو کا عدالتی قتل

9 1
16.03.2024

[email protected]

ملک کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے حکم پر 4 اپریل1979کو رات کے دوسرے پہر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ بھٹو کی پھانسی کو قانونی ماہرین نے عدالتی قتل Judicial Murder قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے صدر آصف علی زرداری ریفرنس کا فیصلہ دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی بنچ نے متفقہ طور پر اس بات کا اقرار کیا کہ ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔

معروف محقق فرخ سہیل گویندی نے ’’ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کیسے ہوا حقائق سے پردہ اٹھتا ہے‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ۔ اس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں ججوں پر دباؤ کے واقعات اور جیل کے افسران کے انٹرویوز جو مختلف رسائل میں شایع ہوئے، شامل ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے منتخب وزیر اعظم کو ہر صورت سزا دینے کے ہتھکنڈوں کا پتہ چلتا ہے۔

سپریم کورٹ کی بنچ جو ذوالفقار علی بھٹو کی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہی تھی وہ چیف جسٹس انوار الحق، جسٹس ملک اکرم، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس کرم الٰہی چوہان، جسٹس قیصر خان، جسٹس وحید الدین، جسٹس محمد حلیم اور جسٹس دوراب پٹیل پر مشتمل تھی۔ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران سب سے زیادہ Vocal جج سزا کے خلاف تھا، وہ جسٹس غلام صفدر شاہ تھے۔ جسٹس صفدر شاہ کے رشتے دار جس کے گھر جج صاحب جایا کرتے تھے وہ مسٹر نصر من اللہ سی ایس پی افسر تھے۔

نصر من اللہ کی اہلیہ جسٹس غلام صفدر شاہ کی بھانجی تھیں۔ نصر من اللہ مارشل لاء کے نفاذ کے وقت بلوچستان کے چیف سیکریٹری تھے۔ ان........

© Express News


Get it on Google Play