وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کی جانب سے وزیر ا عظم آفس کو اس امرکی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ نگران دور میں وزارت خزانہ کی سفارش پر نجی شعبہ کو مقررہ حد کی بجائے کھلی چھوٹ دی گئی اور گندم کے ٹریڈرز کو کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کی چھوٹ بھی دی گئی منظم منصوبے کے تحت اضافی گندم درآمد ہوئی جس سے 300ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، پاسکو اور صوبائی محکمے مطلوبہ ہدف 7.80کی بجائے5.87ملین ٹن گندم خرید سکے۔ بریفنگ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال28.18ملین ٹن گندم پیدا ہوئی، 2.45ملین ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔عوامی ضرورت کے بعد گندم منگوانے کی بجائے اضافی گندم اور چینی منگوا کر اس کی درآمد میں منافع کمانا اور پھر اس کی اندرون ملک تجارت میں کمائی اور سمگلنگ جیسے معاملات تقریباً ہر دور حکومت کی کہانیاں ہیں، اسی طرح ملک کی مجموعی ضرورت اور بجلی کی تقسیم کے نظام سے کہیں اضافی بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے باعث آج وطن عزیز میں بجلی کی مہنگائی اور متبادل شمسی نظام کی حوصلہ افزائی کی بجائے اس کی راہ میں حکومتی رکاوٹیں ڈالنے کا عمل بھی گردشی قرضوں میں اضافے اور زرمبادلہ پر برے اثرات کا باعث بنا ہوا ہے، اسے ”مشتے نمونہ از خروارے” کے مصداق لے کر اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ اس ملک پر حکمرانی کرنیوالے اور با اختیارمقتدرہ سے لیکر افسر شاہی تک ہر صاحب اختیار نے اپنے اختیارات کا جس طرح ناجائز استعمال کیا ہو گا اور عوامی و قومی و ملکی فیصلوں میں وسیع تر مفادات کو جس طرح ذاتی و گروہی مفادات پر جس طرح قربان کیا ہوگا ،دیکھا جائے تو اس ملک کی معیشت کی تباہی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ قرضوں میں اضافے کی بنیاد یہی عاجلانہ و طفلانہ اور مفاد پرستانہ فیصلے ہی ہیں جس کے نتیجے میں آج ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، عوام کا جینا دشوار ہوگیا ہے اور خدانخواستہ ملک دیوالیہ پن کے گڑھے میں گرنے کو ہے، افسوسناک امر تو ملک میں انصاف اور احتساب کانہ ہونا ہے اور ہر بار ملکی اور عوامی مفاد کی قربانی اس دھڑلے سے دینے کے پس پردہ مسئلہ بھی یہی ہے کہ مفاد پرست عناصر اور حکمران بلا خوف احتساب ایسے بددیانتی پرمبنی فیصلے کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے جس کابوجھ عوام نے اٹھانا ہوتا ہے، اضافی گندم کی خریداری ہو یا ضرورت سے زائد چینی درآمد کرنے کا معاملہ ایسا سہواًہوا ہوتا تو اس کی گنجائش تھی، مگر یہاں منظم مافیا باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس طرح کے فیصلے کر تا آیا ہے، ضرورت سے کہیں زائد اور اضافی گندم کی خریداری کے پس پردہ بھی یہی عناصر کارفرما ہوں گے لیکن چونکہ یہ فیصلہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کابینہ کی باقاعدہ منظوری جس میں وزارت خزانہ اور وزارت خوراک سبھی کی ملی بھگت بھی شامل ہو گی اس لئے اس حکومتی فیصلے پر سوائے تنقید کے کچھ نہیں ہوسکتا، مشکل امر یہ ہے کہ عوام بھی بارباراپنے ساتھ ہونیوالے اس ظلم اور لوٹ مار کے خلاف متحدہ آواز نہیں اٹھاتے، عوام کو ان عناصر نے اتنا تقسیم کرکے رکھ دیا ہے اور خلیج اتنی گہری کردی گئی ہے کہ کوئی بھی عوام کے مفاد اور اس کے حقوق کی بات کرنے کو تیار ہی نہیں، جسے موقع ملتا ہے مال مفت دل بے رحم کے عین مصداق ثابت کرکے اپنی راہ لیتا ہے اور آئندہ بھی اس سلسلے کے چلتے رہنے کا خدشہ ہے ،گندم اور چینی سکینڈلز کے پس پردہ عناصر اگر ایک نہیں تو ان کے مفادات میں کوئی تصادم نہیں اور یہی وہ نکتہ ہے کہ یکے بعد دیگرے حکومتوں اور حکمرانوں کی تبدیلی کے باوجود عوام کی حالت کی بہتری اور ملکی مفاد کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے ،اس سے بھی کہیں بڑھ کر دکھ کی بات یہ ہے کہ عوام کو ان عناصر کے احتساب کا شعور نہیں ،نظام عدل اور نظام احتساب تو ان عناصر کے گھر کی لونڈی اور قانون موم کی ناک ہے، اس صورتحال سے نکلنے کی واحد صورت عوامی شعور اور عوامی احتساب ہے یاپھر آسمان والا کسی ایسے انقلاب کی راہ ہموار کرے جوان عناصر کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے لیکن نظام قدرت میں یہ طے ہے کہ وہ بھی اس وقت ہی اس قوم کی حالت کے بدلنے کا فیصلہ کرتا ہے جب قوم خود اٹھ کھڑی ہوتی ہے، بنا بریں بہتر یہ ہو گاکہ آسمان کی طرف دیکھنے کی بجائے خود اپنی حالت آپ بدلنے کی ٹھان لی جائے ،جس کا آغاز ا س طرح کے مفاداتی فیصلوں کے خلاف بھر پور عوامی مہم اور احتجاج سے کرنے کی ضرورت ہے، حکمرانوں کو خوف خداکا احساس دلانااور مقتدرہ وافسر شاہی کو ملکی مفادات کے مطابق فیصلوں کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ انہی کے جان بوجھ کر کئے گئے فیصلوں کو عوام روز اول سے بھگتے آئے ہیں اور انہیں اپنے مفادات کے علاوہ ملک اور عوام کے مفادات کی حفاظت سے کوئی سروکار نہیں۔

QOSHE - استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم - Mashriq Editorial
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم

23 0
03.05.2024

وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کی جانب سے وزیر ا عظم آفس کو اس امرکی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ نگران دور میں وزارت خزانہ کی سفارش پر نجی شعبہ کو مقررہ حد کی بجائے کھلی چھوٹ دی گئی اور گندم کے ٹریڈرز کو کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کی چھوٹ بھی دی گئی منظم منصوبے کے تحت اضافی گندم درآمد ہوئی جس سے 300ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، پاسکو اور صوبائی محکمے مطلوبہ ہدف 7.80کی بجائے5.87ملین ٹن گندم خرید سکے۔ بریفنگ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال28.18ملین ٹن گندم پیدا ہوئی، 2.45ملین ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔عوامی ضرورت کے بعد گندم منگوانے کی بجائے اضافی گندم اور چینی منگوا کر اس کی درآمد میں منافع کمانا اور پھر اس کی اندرون ملک تجارت میں کمائی اور سمگلنگ جیسے معاملات تقریباً ہر دور حکومت کی کہانیاں ہیں، اسی طرح ملک کی مجموعی ضرورت اور بجلی کی تقسیم کے نظام سے کہیں اضافی بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے باعث آج وطن عزیز میں بجلی کی مہنگائی اور متبادل شمسی نظام کی حوصلہ افزائی کی بجائے اس کی راہ میں حکومتی رکاوٹیں ڈالنے کا عمل بھی گردشی قرضوں میں اضافے اور زرمبادلہ پر........

© Mashriq


Get it on Google Play