ایک دفعہ مغل بادشاہ اکبر جب اپنے مشہور نو رتن راجہ بیر بل سے بہت خوش ہو ئے تو کہا کہ مانگ جو کچھ مانگنا ہے ، آج مابدولت تمہاری فرمائش پوری کریں گے ۔ بیربل عرض گزار ہوا کہ حضور کے اقبال نے ہر طرح سے اُسے سکھی رکھا ہے ، کوئی مطالبہ نہیں اور یوں بھی مطالبات کا پورا کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے ، اس لیے فدوی کو معاف ہی فرمایا جائے ۔ اکبر با دشاہ جوش میں آیا اور حکم دیا کہ ایک نہیں پورے پانچ مطالبات پیش کر دئیے جائیں جو آج ہی پورے کئے جاوئیں گے ۔ سلطنت مغلیہ کے آگے بھلا پانچ مطالبات کا پورا کرنا کس طرح مشکل ہو سکتا ہے ۔ اس پر بیربل نے پہلے اپنی جان کی امان پائی اور پھر مطالبات پیش کرنے لگا ۔ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ مہا بلی ! مجھے ایک ہاتھی منگوا دیں ۔ جب ایک ہاتھی فوراً آگیا تو بیربل نے خوش ہو کر دوسرا مطالبہ پیش کیا کہ جہاں پناہ ! مجھے ایک لوٹا منگوا دیں ۔ بادشاہ نے فوری طور پہ سونے کا جڑاؤ لوٹا منگوا دیا ، بیربل نے کہا مہاراج ! میرا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ اب ہاتھی کو اس لوٹے میں ڈال دیا جائے ۔ اس پر شہنشاہ معظم اور تمام اہل دربار حیران ہوئے اور چند سیانے درباریوںنے سمجھایا کہ دیوانے مت بنو اور یہ ناممکن العمل مطالبہ واپس لے لو ۔ اگر تم اصرار ہی کرتے ہو تو ہم کسی مصالحے اور کپڑے کے بنے ہوئے ہاتھی کو لوٹے میں ٹھونس دیتے ہیں ۔ بیربل نے کہا کہ چلو ہم بھی اپنے مطالبہ میں لچک پیدا کر لیتے ہیں اور اس متبادل تجویز کو مان لیتے ہیں چنانچہ ایک ہاتھی نما کھلونا کسی طرح کھینچ تان کر لوٹے میں گھسیڑ دیا گیا ۔ بیربل نے کہا عالم پناہ ! میرا چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ اب اسی لوٹے میں پڑے ہوئے ہاتھی کو لوٹے کی ٹوٹی والے راستے سے باہر نکال دو ۔ اب دربار میں خاموشی طاری ہو گئی ۔ بیربل نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت ! اگر آپ چوتھا مطالبہ جو کہ بالکل بے ضرر اور جائز ہے ، پورا کر دیں تو میں مطالبات کے منوانے اور سودا بازی کا مقبول طریقہ کار اپناتے ہوئے اپنا پانچواں مطالبہ واپس لے لیتا ہوں لیکن چوتھا مطالبہ ضرور پورا کرنا ہوگا ۔ اس پر شہنشاہ ہند جو تلوار کا دھنی اور صرف بارہ سال کی عمر میں پانی پت کی دوسری جنگ جیتی تھی ، ہمیشہ اپنے حریفوں کو عبرت ناک شکست دی مگر اب ایک ناجائز مطالبہ کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے مات کھا گیا ۔ قارئین کرام !ہمیں قومی سلامتی و معاشی بحالی کے لیے کئی مشکلات کا سامنا ہے جس پر قابو پانے کو سب سے پہلے مُلک میں سیاسی استحکام نا گزیر ہے ۔ یہ تب ممکن ہو گا جب حزب اقتدار اور اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے رہنما لوٹے اور ٹوٹی قسم کے مطالبات چھوڑ کر ایوان میں اور ایوان سے باہر آئین کے مطابق اپنا تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے آپس میں مذاکرات کرنے بیٹھ جائیں ۔ آج ہمیں قومی مفاہمت کی بڑی ضرورت ہے ، سیاست میں بات چیت کے لیے کبھی دروازے بند نہیں کیے جاتے ۔سیاسی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ہی سیاسی کشیدگی ختم کر سکتی ہے ۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بہت سے رہنمااب بھی ناروا مطالبات اور سڑکوں پر احتجاج کرنے کی سیاسی بیان بازی میں وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جماعت کا ایک ہی موقف اختیار کر لیں تاکہ مذاکرات کی کوئی صورت نکل سکے ورنہ ایک ہی پارٹی کے مختلف رہنماؤں کی متضاد بولیاں محض اپنی سیاسی قامت بڑھانے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ہاں ایسے سیاسی بیانات ، الزامات اور ناروا مطالبات سے صرف اپنے پارٹی کارکنوں اور سوشل میڈیا سے متاثر نوجوانوں کے دل و دماغ میں جہاں مخالفین کے خلاف نفرت بھری جا رہی ہے وہاں پھر کسی کو لاڈلا بننے میں آسانیاں حاصل کرنے کی کوشش بھی جاری ہے ۔ آئین و جمہوریت کی بالا دستی تب ممکن ہے جب تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے اور قومی معاملات کوئی ناجائز مطالبہ کیے بغیر مذاکرات کے ذریعے طے کرنے پر راضی ہو جائے ۔ یہی جمہوری اقدار اور پارلیمانی سیاست کے تقاضے ہیں یہ کہ سیاسی قیادت اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور عوام کے مسائل کے بارے میں بات چیت کرے اور معاشی معاملات کو سدھارنے کے لیے کوئی راستہ نکالے ۔

QOSHE - سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات - Mashriq Editorial
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات

30 0
05.05.2024

ایک دفعہ مغل بادشاہ اکبر جب اپنے مشہور نو رتن راجہ بیر بل سے بہت خوش ہو ئے تو کہا کہ مانگ جو کچھ مانگنا ہے ، آج مابدولت تمہاری فرمائش پوری کریں گے ۔ بیربل عرض گزار ہوا کہ حضور کے اقبال نے ہر طرح سے اُسے سکھی رکھا ہے ، کوئی مطالبہ نہیں اور یوں بھی مطالبات کا پورا کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے ، اس لیے فدوی کو معاف ہی فرمایا جائے ۔ اکبر با دشاہ جوش میں آیا اور حکم دیا کہ ایک نہیں پورے پانچ مطالبات پیش کر دئیے جائیں جو آج ہی پورے کئے جاوئیں گے ۔ سلطنت مغلیہ کے آگے بھلا پانچ مطالبات کا پورا کرنا کس طرح مشکل ہو سکتا ہے ۔ اس پر بیربل نے پہلے اپنی جان کی امان پائی اور پھر مطالبات پیش کرنے لگا ۔ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ مہا بلی ! مجھے ایک ہاتھی منگوا دیں ۔ جب ایک ہاتھی فوراً آگیا تو بیربل نے خوش ہو کر دوسرا مطالبہ پیش کیا کہ جہاں پناہ ! مجھے ایک لوٹا منگوا دیں ۔ بادشاہ نے فوری طور پہ سونے کا جڑاؤ لوٹا منگوا دیا ، بیربل نے کہا مہاراج ! میرا تیسرا مطالبہ یہ ہے........

© Mashriq


Get it on Google Play