دو گْھنّے جیمز بانڈ
سترھویں صدی کے وسط کا لندن کالی موت کے پنجوں میں تھا۔ ہر روز سینکڑوں افراد ہلاک ہو رہے تھے۔ تب کا لندن اتنا بڑا نہیں تھا، آج کے گجرات اوکاڑے جتنا ہو گا۔ چند ہی ماہ میں شہر کی چار لاکھ کی آبادی میں سے ایک لاکھ مارے گئے۔ یعنی ایک چوھائی آبادی کالی موت نے نگل لی۔ شروع شروع میں لوگ اپنے مرد ے دفناتے رہے، پھر یہ سکت بھی کم ہو گئی۔ گھر میں دو لاشیں پڑی ہیں اور دو زندہ افراد جو بیماری اور خوف سے ادھ موئے ہو گئے ہیں۔ کیسے وہ مردوں کو اٹھائیں، قبرستان لے جائیں اور دفنائیں۔ چنانچہ تعفّن بہت پھیل گیا، کالی موت کا زور اور بڑھ گیا۔
بلدیہ کو حرکت میں آنا پڑا۔ اسنے گدھا گاڑیاں حاصل کیں۔ بلدیہ کے اہلکار ڈھاٹے باندھے گلی گلی کوچے کوچے پھیل گئے۔ وہ ایک ہی صدا لگاتے تھے، اپنے اپنے مردے دے جائو، اپنے اپنے مردے لے آئو۔ گھر والے اپنے گھر کے مردے اٹھاتے اور دروازے پر کھڑی گدھا گاڑی میں ڈال دیتے۔ بلدیہ شام کو اکٹھی ہونے والی سب لاشوں کو اجتماعی طور پر دفن یا نذر آتش کر دیتی۔
کچھ کچھ ملتے جلتے مناظر غزہ کے بھی ہیں۔ رضاکار گھر گھر، توبہ، گھر کہاں، کھنڈر کھنڈر جا کر لاشیں ملبے سے نکالتے اور لے جاتے ہیں۔ اور لے کہاں جاتے ہیں، وہیں سڑک کنارے داب دیتے ہیں۔ ہاں، بچوں کا معاملہ اور ہے۔ اس طرح کی تصویریں روز آ رہی ہیں کہ ایک جگہ جیسے لنڈے کے کپڑوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ لنڈے کی دکانیں آپ نے دیکھی ہوں گی، سڑک پر بہت لمبا چوڑا کپڑا یا دری بچھا کر کپڑوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں، ڈھیروں کو ٹٹولتے ہیں اور پسند کا کپڑا چن لیتے ہیں۔ تو غزہ میں بھی ایسے ڈھیر لگے ہیں، دور سے دیکھو تو لنڈے کے کپڑوں........
© Nawa-i-Waqt
visit website