چند روز سے سردی کی شدید لہر چل رہی ہے۔ آسمان تلے بادلوں اور سموگ نے ایکا کر رکھا ہے جس سے تکلیف بڑھ گئی ہے۔ برسبیل تذکرہ، موسموں کا حال دیکھیں تو پتہ چلتا ہے، کارخانہ قدرت نے یہ نظام نادار اور محروم طبقے کو سامنے رکھ کر بنایا ہے۔ سخت سردی اس لئے کہ یہ لوگ ٹھٹھر کر مر جائیں، گرمی اس لئے کہ جھلس کر مر جائیں، برسات اس لئے کہ ڈوب کر یا گرتے مکانوں کے ملبے تلے دب کر مر جائیں، پت جھڑ اس لئے کہ مسلے کچلے زرد پتے دیکھ کر انہیں ا پنی مسلی کچلی خواہشات اور تمنائیں یاد آئیں اور شدت یاس انہیں ادھ موا کر دے۔
کچھ عرصے سے پاکستان سرکار کی بھی غریبوں اور ناداروں پر نظر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے، یہی کوئی دو اڑھائی عشرے قبل مونگ پھلی کو غریبوں کا بادام کہا جاتا تھا۔ وہ بادام نہیں خرید سکتے تھے، مونگ پھلی ہی کو بادام تصور کر لیتے تھے۔ سرکار کو اس بات کا پتہ کیسے چلا، پتہ نہیں لیکن بہرحال پتہ چل گیا۔ تب سے مونگ پھلی کے نرخ اتنے بڑھ گئے کہ بادام سے ذرا ہی کم رہ گئے۔ بعضے دکاندار تو بادام کو بادام درجہ اوّل اور مونگ پھلی کو بادام درجہ دوئم کہہ کر بیچتے ہیں۔ چلئے ، نادار طبقے کو مونگ پھلی چھیلنے کے جھنجھٹ سے تو چھٹکارا مل گیا۔
ہم نے اپنے بزرگوں کو کہتے سنا کہ سردی کا بہترین بھگائو یہ ہے کہ چلغوزے کھائو۔ انہیں کھاتے اور کھلاتے بھی دیکھا۔ چلغوزے اب بھی ملتے ہیں، خریداری کیلئے البتہ مکان گروی رکھنا پڑتا ہے۔
غریبوں کے بادام کی طرح غریبوں کا سیب بھی ہوا کرتا تھا یعنی بیر، اتنے سستے ملتے تھے کہ میر کا مصرعہ یاد آیا، میر کی جگہ بیر لگا دوع:
پھرتے ہیں بیر خوار کوئی پوچھتا نہیں ۔
بچے بالے خوب خریدتے تھے اور کھاتے تھے، پھر مہنگے پھل کا تقاضا نہیں کرتے تھے۔ سرکار کو بھی پتہ نہیں کیسے اس کا پتہ چل گیا۔ آج کل بیر سیب سے بھی مہنگے ملتے ہیں۔
فہرست لمبی ہے، کالم چھوٹا پڑ جائے گا۔ چنانچہ فی الحال زمہر یری ہوائوں سے لطف اٹھائیں اور سرکار کی ’’انٹیلی جنس‘‘ صلاحیتوں کی داد دیں کہ اس کی غریب نادار اور محروم طبقے پر کیسی گہری نظر ہے۔
__________________
عام الیکشن کے انعقاد میں بس ایک مہینہ رہ گیا، پورا پورا۔ 8 فروری سے دو دن پہلے انتخابی مہم ختم ہو جائے گی یعنی 6 تاریخ کو اور آج چار جنوری ہو گئی یعنی ایک مہینے سے صرف دو دن اوپر اور سب جماعتیں سرگرم ہو جائیں، نواز شریف کی انتخابی مہم کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ حالانکہ ان کی وطن واپسی پر ایک ہی شور تھا کہ نواز شریف واپس آتے ہی، ایک دو روز کے آرام کے بعد رابطہ عوام مہم شروع کرنے والے ہیں۔
ایک لیگی ذریعے سے پوچھا تو فرمایا، دراصل ٹکٹوں کی تقسیم کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا۔ جیسے ہی حل ہوا، وہ مہم پر نکل جائیں گے۔ عرض کیا براہ کرم یہ بات خفیہ ہی رکھئے گا۔ پوچھنے لگے کیوں؟۔ عرض کیا، اس لئے کہ پھر لوگ کہیں گے جو لوگ ٹکٹوں کا مسئلہ حل نہیں کر سکتے، وہ ملکی مسائل کیا حل کریں گے۔
بہرحال امید ہے کہ ٹکٹوں کا مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ پھر میاں صاحب کو مزید آرام کی ضرورت ہو گی چنانچہ، مزید امید کی جا سکتی ہے کہ الیکشن کے فوراً بعد میاں صاحب اپنی انتخابی مہم شروع کر دیں گے۔
__________________
پی ٹی آئی کے بامر مجبوری چیئرمین گوہر خاں نے فرمایا ہے کہ تاحیات نااہلی والے کی اہلیت کا راستہ روکیں گے۔ اس تاحیات نااہلی کا معاملہ عدالت میں ہے۔ سنا ہے آج نہیں تو ہفتہ بھر میں معاملہ طے ہو جائے گا۔ اس دوران پی ٹی آئی کا ’’مخمصہ‘‘ زوروں پر ہے۔ وہ تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرنے کی حامی بھی ہے کہ اس کی زد میں گریٹ خان سمیت دوچار بھی آ سکتے ہیں اور ساتھ ہی قانون ختم کرنے کی شدید مخالفت بھی ہے کیونکہ اس سے نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہو جائے گی اور مسئلہ بلکہ شدید ترین مسئلہ ہی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ساری امید آس اس سہارے پر ہے کہ نواز شریف کبھی اہل نہ ہو پائیں۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ، کوئی وجہ بتائے بغیر قاضی القضاۃ کے خلاف مورچہ بند ہے، سب دشتم الزام دشنام کا ایک سونامی ہے جس کا رخ قاضی القضاۃ کی طرف ہے۔ بنیادی وجہ صرف ایک ہے کہ وہ تاحیات نااہلی کا قانون ختم کر سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کو یہ طے کرنے میں مشکل ہے کہ کیا کرے۔ قانون کی حمایت کرے یا مخالفت۔ مناسب ہے کہ وہ درمیانی راستہ تلاش کرے۔ یعنی قاضی القضاۃ کی عدالت میں عرضی ڈال دے کہ حضور، کچھ اس قسم کا فیصلہ صادر فرمائیں کہ آئندہ کیلئے تاحیات نااہلی کا قانون ختم کر دیں، ماضی کے فیصلے قائم رکھیں۔ ماضی کو بھول جائیں، مستقبل کیلئے طے کریں۔ یعنی نواز کی نااہلی باقی رکھیں، باقی کی ختم کریں۔
یہ درمیانی راستہ قاضی القضاۃ نے اختیار نہ کیا تو پی ٹی آئی کا کیا بنے گا؟ سوچ کر دل کو ہول آتا ہے۔
__________________
پی ٹی آئی کے عظیم رہنما جمشید دستی کے گھر پولیس چھاپے کا معاملہ ان دنوں سوشل میڈیا پر بہت گرم ہے۔ انہوں نے آٹھ دس منٹ کا ایک وڈیو ریکارڈ کیا اور اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ اس میں انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے چھاپہ مار کر ان کی اہلیہ کو برہنہ کر دیا اور بہت غنڈہ گردی کی۔ دس منٹ کی وڈیو میں انہوں نے سات درجن کے قریب ننگی گالیاں استعمال کیں۔ ایسی گالیاں کہ اشاعت کے قابل نہ سماعت کے قابل۔
ثبوت کے طور پر انہوں نے چھاپے کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کا کلپ بھی اپ لوڈ کیا۔ مسئلہ اس بیچ یہ آن پڑا کہ اس کلپ میں دکھائی گئی گلی کی فوراً ہی شناخت ہو گئی۔ یہ گلی دستی والی گلی نہیں ہے، اس سے دور، کسی اور کالونی کی معروف ورکشاپ والی گلی ہے، خیر، اس غلطی کو’’ کلیریکل مسٹیک‘‘ کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اصل بات وہ وضاحت اور بلاغت ہے جس کا دستی صاحب نے اس وڈیو میں پوری سخاوت سے استعمال کیا۔ حیرت اس بات پر ہے، دستی صاحب جیسے گوہر نایاب ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کو چیئرمین کے عہدے پر بٹھانے کیلئے گوہر جان کی ضرورت کیوں پڑی۔ اب پی ٹی آئی کے حلقے ہی یہ شکایت کر رہے ہیں کہ گوہر جان توقعات پر پورے نہیں اترے۔ دستی صاحب کو چیئرمین بنا لیا ہوتا تو اس شکایت کی نوبت ہی نہ آتی۔ انصاف کی نظر سے دیکھیں، جانشینی کیلئے درکار تمام صفات دستی صاحب میں موجود ہیں۔ سچ پوچھئے تو وہ چودھری اعتزاز احسن سے بھی بڑھ کر جوہر قابل اور گوہر رامل ہیں۔
٭…٭…٭

سڈنی ٹیسٹ: بارش کے باعث دوسرے روز کا کھیل ختم، صرف 46 اووز ممکن ہو سکے

QOSHE - دستی کو چیئرمین کیوں نہ بنایا؟ - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

دستی کو چیئرمین کیوں نہ بنایا؟

12 0
04.01.2024

چند روز سے سردی کی شدید لہر چل رہی ہے۔ آسمان تلے بادلوں اور سموگ نے ایکا کر رکھا ہے جس سے تکلیف بڑھ گئی ہے۔ برسبیل تذکرہ، موسموں کا حال دیکھیں تو پتہ چلتا ہے، کارخانہ قدرت نے یہ نظام نادار اور محروم طبقے کو سامنے رکھ کر بنایا ہے۔ سخت سردی اس لئے کہ یہ لوگ ٹھٹھر کر مر جائیں، گرمی اس لئے کہ جھلس کر مر جائیں، برسات اس لئے کہ ڈوب کر یا گرتے مکانوں کے ملبے تلے دب کر مر جائیں، پت جھڑ اس لئے کہ مسلے کچلے زرد پتے دیکھ کر انہیں ا پنی مسلی کچلی خواہشات اور تمنائیں یاد آئیں اور شدت یاس انہیں ادھ موا کر دے۔
کچھ عرصے سے پاکستان سرکار کی بھی غریبوں اور ناداروں پر نظر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے، یہی کوئی دو اڑھائی عشرے قبل مونگ پھلی کو غریبوں کا بادام کہا جاتا تھا۔ وہ بادام نہیں خرید سکتے تھے، مونگ پھلی ہی کو بادام تصور کر لیتے تھے۔ سرکار کو اس بات کا پتہ کیسے چلا، پتہ نہیں لیکن بہرحال پتہ چل گیا۔ تب سے مونگ پھلی کے نرخ اتنے بڑھ گئے کہ بادام سے ذرا ہی کم رہ گئے۔ بعضے دکاندار تو بادام کو بادام درجہ اوّل اور مونگ پھلی کو بادام درجہ دوئم کہہ کر بیچتے ہیں۔ چلئے ، نادار طبقے کو مونگ پھلی چھیلنے کے جھنجھٹ سے تو چھٹکارا مل گیا۔
ہم نے اپنے بزرگوں کو کہتے سنا کہ سردی کا بہترین بھگائو یہ ہے کہ چلغوزے کھائو۔ انہیں کھاتے اور کھلاتے بھی دیکھا۔ چلغوزے اب بھی ملتے ہیں، خریداری کیلئے البتہ مکان گروی رکھنا پڑتا ہے۔
غریبوں کے بادام کی طرح غریبوں کا سیب بھی ہوا کرتا تھا یعنی بیر، اتنے سستے ملتے تھے کہ میر کا مصرعہ یاد........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play