نیو خان کا زوال
حد فرسودگی کو پہنچا ہوا لیکن ایک متواتر حکایت نما لطیفہ کچھ یوں ہے کہ دو افراد میں جھگڑا ہو گیا۔ دونوں نے تصفیے کیلئے ایک تیسرے صاحب کو ثالث مقرر کیا اور اپنا اپنا کیس اس کے سامنے رکھا۔ ثالث نے پہلے فریق کو سنا اور کہا، تمہارا موقف ٹھیک لگتا ہے، تم درست کہتے ہو۔ دوسرا فریق بگڑ گیا، کہا، یہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اصل بات میں بتاتا ہوں۔ ثالث نے اس کی بات سْنی اور کہا، کہتے تو تم بھی ٹھیک ہو، اس پر پہلے فریق نے احتجاج کیا اور نئے حقائق اس کے سامنے رکھے۔ ثالث نے کہا، تمہاری بات درست لگتی ہے۔ دوسرے فریق نے پھر اپنا موقف پیش کیا تو ثالث نے کہا، بات تمہاری بھی ٹھیک ہے۔ اس پر دونوں فریق اٹھے، اپنے جھگڑے کو ایک طرف رکھا، متحد ہو کر ایک پیج پر آ گئے اور ثالث کو دھر لیا اور اس کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کر ڈالی۔ یعنی بقول ظریف لکھنوی؟:
اے تھالی کے بینگن تو ادھر بھی ہے، ادھر بھی،
اور حکایت کہنہ ایک واردات تازہ کے تناظر میں یاد آئی۔ معاملہ سو فیصد مشابہ نہیں ہے، فرق ہے لیکن بنیادی نکتہ یعنی ادھر بھی اور اْدھر بھی والا مشترک ہے۔ فرق ہے کہ اس واردات تازہ میں ایک فریق نے خود بھی اپنے آپ کو ثالث بنا لیا اور پھر اپنے اور فریق مخالف کے موقف، دونوں ہی کو درست قرار دے دیا۔
______
یہ ماجرا ہے پی ٹی آئی کے معتوب رہنما شیر افضل مروت کا جنہوں نے پچھلے مہینوں میں اپنے بلند بانگ غل غپاڑے سے خوب توجہ پائی، جیل میں بند اپنے قائد ،دی گریٹ خان سے داد بھی لی اور ایک موقع پر انہیں یہ بھی کہتے سنا گیا کہ ایک خان جیل میں ہے تو ایک دوسرا خان جیل سے باہر ہے، فکر نشتہ۔ یہ........
© Nawa-i-Waqt
visit website