جن آزادی پسند احباب کو الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے تھے، چند دنوں سے انہیں بھی الیکشن ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ زیادہ نہ سہی، تھوڑا ہی سہی، الیکشن کا چاند انہیں نظر آ تو گیا۔ پنجابی گانا یاد آ گیا، تھوڑا تھوڑا چن دیکھیا، باقی ’’اجے بھی‘‘گھٹا کے اولہے۔ یعنی پورا نظر نہیں آیا لیکن جتنا بھی نظر آیا، آیا تو سہی اور چاند تو چاند ہے کیا ماہ نیم ماہ، کیا ہلالِ یک روزہ۔ ان احباب کے دل دکھی ہیں اور حال دل چہروں سے بھی عیاں ہے، مہروں سے بھی۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ ایک پریس ریلیز جاری کر دیں جس میں کہا گیا ہو کہ آزادی پسند احباب کا اجلاس ہوا جس میں ایک قرارداد کے ذریعے الیکشن کا چاند نظر آنے پر گہرے غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور اس آزادی دشمن اقدام پر چاند کی شدید مذمت کی گئی۔
_____
یہ آزادی پسند احباب بظاہر یہ دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ الیکشن جلد کیوں نہیں کراتے، کرائو نا الیکشن، ہمیں 85 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے (تازہ اطلاع کے مطابق دعویٰ حمایت 85 فیصد سے بڑھ کر 95 فیصد ہو چکا ہے) لیکن درپردہ جملہ محنت اس بات پر کی جا رہی ہے کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں جس کے بعد اس مضمون کی صف شو ر و غوغا پر پا کی جا سکے گی کہ دیکھو، ’’عوام‘‘ کے فیصلے سے ڈر کر الیکشن ملتوی کر دئیے، جانتے تھے کہ الیکشن ہو گئے تو ہماری حقیقی آزادی پارٹی پانچ چوتھائی سے بھی زیادہ اکثریت لے جاتی۔
بہرحال، ان احباب کو تھوڑا تھوڑا چاند نظر آ تو گیا ہے لیکن دل میں امید کی جوت اب بھی ٹمٹماتی ہے کہ شاید فریب نظر ہو ، چاند نہ ہو، بادل کا کنارہ ہو جو بادل سے کٹ کر شعاعوں کی وجہ سے سنہری ہلال لگتا ہو۔
_____
الیکشن ملتوی کرانے کی کوششوں میں انہوں نے جوتوپ خانہ استعمال کیا، وہ افواہوں کے علاوہ ’’باخبر ذرائع‘‘ کے بارود خانے کاسہارا لیتا تھا۔ یہ باخبر ذرائع اس نوع کے تجزئیے چھاپتے اور نشر کرتے تھے کہ مقتدر حلقے مستقبل کو لے کر پریشان ہیں اور سمجھتے ہیں، کہ الیکشن ہوا تو بحران پیدا ہو گا چنانچہ و ہ التوا کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ دوسرا بارود خانہ ان ترغیبی تجزیوں کے گولوں سے بھرا ہوا تھا کہ موجودہ عسکری قیادت جیسی نیک پاک قیادت آئی ہی نہیں۔ قوم چاہتی ہے کہ الیکشن کے جھنجھٹ میں نہ پڑا جائے، عبوری سیٹ اپ ہی کو تین چار یا چھ سات سال کی وسعت دے دی جائے،
عسکری قیادت کے نیک پاک ہونے میں کیا شک ہے لیکن وہ نیک پاک ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب فہم و نظر بھی ہے ، اس دام ہم رنگ زمین کے فریب میں نہ آئی اور یوں ارباب حقیقی آزادی کی مراد بر نہیں آ سکی۔
_____
ارباب حقیقی آزادی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھی دکھی ہیں جس کی روسے سیاستدانوں کی نااہلی کے ساتھ بندھی تاحیات کی زنجیر ہٹا دی گئی۔ وہ اس فیصلے کو اصولی فیصلہ نہیں مانتے، شخصی فیصلہ قرار دیتے ہیں کہ دراصل اس فیصلے سے نواز شریف کو فائدہ پہنچا۔
ایک تجزیہ نگار نے تاریخ کی ٹھنڈی ترین سانس لے کر فرمایا کہ نوازشریف کو عدالت نے ریلیف دے دیا۔
غلط۔ ریلیف نہیں، انصاف دیا، وہ بھی چھ سال کی تاخیر کے ساتھ!
_____
نااہلی کا تیر نواز شریف کے سینے پر مارا گیا جو سینے سے نکل کر جسدِ قومی پر جا لگا اور اس زور سے کہ قوم چھ صدی پیچھے جا پڑی۔ جو بحران آیا، اس کے نتیجے میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں ساڑھے چار پانچ کروڑ کا اضافہ ہو گیا۔ مہنگائی اتنی بڑھی کہ پانچ روپے کی چیز سو روپے کی ہو گئی۔ معاشی ابتری کو اس سماجی انارکی نے اور بھی ابتر کر دیا جو ارباب حقیقی آزادی اور ان کے سہولت کاروں نے پیدا کی تھی۔ جو عالمی تنہائی ہم نے کمائی وہ الگ۔ ادارے منہدم ہونے لگے اور ان کی ساکھ تحلیل ہونے لگی۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ قدرت نے دستگیری کی اور قدرت ہر بار دستگیری نہیں کرتی، یہ خیرات کبھی کبھی ملتی ہے۔
_____
احباب حقیقی آزادی پہلے تو یہ یقین کرنے پر تیار نہیں تھے کہ اقتدار کا ھما ان کے سر سے اڑ چکا ہے۔ آہستہ آہستہ یقین آیا تو بدلہ لینے پر تل گئے، ہم نہیں تو پھر کوئی نہیں، یہاں تک کہ یہ ملک بھی نہیں اور یہ نعرہ انہوں نے سڑکوں پر بار بار لگایا جس کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر بدستور گاہے گاہے باز دید ہوتے رہتے ہیں، واشگاف الفاظ میں کہا گیا کہ خان ہے تو ملک ہے، خان نہیں تو ملک بھی نہیں۔ دو چار پانچ دس نہیں، سینکڑوں پاپڑ اس نعرے کو حقیقت بنانے کے لیے پیلے گئے۔ پچاس پچاس بار اسی ایک لیڈر نے کہا، خانہ جنگی ہو گی، ملک سری لنکا بنے گا۔ فوج کے تین ٹکڑے ہوں گے اور ملک کے بھی تین ہی ٹکڑے ہوں گے۔ تم نے ہماری بنکاک کی راتیں چھین لی ہیں، ہم تمہیں ہانگ کانگ کے شعلے دیں گے۔ بنکاک کی راتیں دور حاضر کا محاورہ ہے، ماضی کا محاورہ بغداد کی راتیں ہوا کرتا تھا۔
شروع میں تو ان نعروں کو دھمکیاں اور بھبھکیاں سمجھا گیا لیکن 9 مئی ہوا تو پتہ چلا کہ تیاری مکمل تھی، مکمل سے بھی زیادہ تھی لیکن کیا ہوا کہ تقدیر نے قوم کی دستگیری کی اور احباب آزادی کی بڑی تعداد حوالہ حوالات ہوئی، چھوٹی تعداد ملک سے بھاگ گئی، کچھ روپوش ہو گئی کچھ بدستور میدان میں ہے، مجموعی نتیجہ وہی نکلا جو بہت پہلے پانی پت میں نکلا تھا۔ تاریخ کی سائنس بتاتی ہے کہ پانی پت میں جو کھیت رہا، کشتِ امید اس کی ہمیشہ کیلئے مرجھا گئی کہ کبھی اس کے بعد ہری نہ ہوئی۔
_____
نواز شریف کو تاحیات نااہلی کی سزا جس ’’دبّ اکبر‘‘ نے سنائی وہ کب کا تحلیل ہو چکا۔ کوئی پہلے آ رہا، کوئی بعد میں، افق پر اب ان میں سے کوئی بھی نظر نہیں آتا۔
دبّ اکبر یعنی سات سہیلیوں کا جھمکا جو بکھر گیا۔ زیرنظر معاملے میں سہیلی کی جگہ سہیلا پڑھ لیجئے۔ سات سہیلے۔ ان میں دو ’’جی‘‘ (G) تھے اور پانچ جے (J)۔ جی جے کے اس کھیل میں ناحق وطن کے جی کا زیاں ہو گیا۔
قانون جس کے تحت سزا سنائی گئی، یہ تھا کہ بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنا سنگین جرم ہے۔ حوالہ اس قانون کا قانون کی کسی کتاب میں مذکور نہیں، ایک خیالی، فرضی بلیک لا ڈکشنری گھڑ کے قانون کی یہ شق اس میں ڈالی گئی۔ اب جو فیصلہ سپریم کورٹ میں ہوا ہے، اس میں اس بات کو نہیں چھیڑا گیا، محض یہ واضح کیا گیا ہے کہ نااہلی کی میعادکتنی ہونی چاہیے۔ ایک دن، کسی نہ کسی ان بلیک لا ڈکشنری کے ’’کمپوزر‘‘ حضرات بھی کسی نہ کسی کٹہرے میں آئیں گے جیسے کل پرویز مشرف، بعدازمرگ آیا کہ جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کا سنایا گیا سزائے موت کا فیصلہ برقرار اور درست ٹھہرا ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 500 فیصد اضافہ

QOSHE - جو پانی پت میں کھیت رہے - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

جو پانی پت میں کھیت رہے

8 0
11.01.2024

جن آزادی پسند احباب کو الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے تھے، چند دنوں سے انہیں بھی الیکشن ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ زیادہ نہ سہی، تھوڑا ہی سہی، الیکشن کا چاند انہیں نظر آ تو گیا۔ پنجابی گانا یاد آ گیا، تھوڑا تھوڑا چن دیکھیا، باقی ’’اجے بھی‘‘گھٹا کے اولہے۔ یعنی پورا نظر نہیں آیا لیکن جتنا بھی نظر آیا، آیا تو سہی اور چاند تو چاند ہے کیا ماہ نیم ماہ، کیا ہلالِ یک روزہ۔ ان احباب کے دل دکھی ہیں اور حال دل چہروں سے بھی عیاں ہے، مہروں سے بھی۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ ایک پریس ریلیز جاری کر دیں جس میں کہا گیا ہو کہ آزادی پسند احباب کا اجلاس ہوا جس میں ایک قرارداد کے ذریعے الیکشن کا چاند نظر آنے پر گہرے غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور اس آزادی دشمن اقدام پر چاند کی شدید مذمت کی گئی۔
_____
یہ آزادی پسند احباب بظاہر یہ دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ الیکشن جلد کیوں نہیں کراتے، کرائو نا الیکشن، ہمیں 85 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے (تازہ اطلاع کے مطابق دعویٰ حمایت 85 فیصد سے بڑھ کر 95 فیصد ہو چکا ہے) لیکن درپردہ جملہ محنت اس بات پر کی جا رہی ہے کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں جس کے بعد اس مضمون کی صف شو ر و غوغا پر پا کی جا سکے گی کہ دیکھو، ’’عوام‘‘ کے فیصلے سے ڈر کر الیکشن ملتوی کر دئیے، جانتے تھے کہ الیکشن ہو گئے تو ہماری حقیقی آزادی پارٹی پانچ چوتھائی سے بھی زیادہ اکثریت لے جاتی۔
بہرحال، ان احباب کو تھوڑا تھوڑا چاند نظر آ تو گیا ہے لیکن دل میں امید کی جوت اب بھی ٹمٹماتی ہے کہ شاید فریب نظر ہو ، چاند نہ ہو، بادل کا کنارہ ہو جو بادل سے کٹ........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play