قصہ ’’فوٹیج‘‘ کھانے کا
ایک فلم میں سین کچھ یوں تھا کہ اداکار سنجیو کمار کو بس سٹاپ پر کھڑے ہو کر چند لمحے انتظارکرنا ہے اور بس کے آتے ہی اسمیں سوار ہونا ہے۔ سین شروع ہوا، بس آتی دکھائی دی، پھر رک گئی اور دوبارہ چلی تو رفتار آہستہ تھی۔ سنجیو کمار نے بس کی طرف دیکھ کر برجستہ فقرہ کہا، جلدی آبھی جا، کیوں ’’فوٹیج‘‘ کھا رہی ہے۔ یہ فقرہ سکرپٹ میں نہیں تھا، معمولاً اسے کاٹ دیا جاتا لیکن ڈائریکٹر کو پسند آ گیا، نہیں کاٹا اور فلم میں بھی چل گیا۔
یہ بہت پرانی بات ہے جب عام ناظرین فلمی صنعت کی اصطلاحات سے واقف نہیں تھے۔ جو لوگ واقف تھے، وہ اس آؤٹ آف سکرپٹ فقرے سے محظوظ ہوئے، جو ناواقف تھے، وہ مطلب تو نہیں سمجھے لیکن مدعا سمجھ گئے۔ سین جتنا لمبا ہو گا، سلو لائیڈ فیتے کے اتنے ہی فٹ صرف ہوں گے، اسی کو ’’فوٹیج‘‘ کھانا کہتے ہیں۔
پاکستان کا حالیہ سیاسی ڈرامہ بھی بہت ’’فوٹیج‘‘ کھا چکا لیکن اب آتی بس کی رفتار تیز تر ہو تی ہوئی لگ رہی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مزید فوٹیج ضائع نہیں ہو گی، کلائمکس قریب ہے جس کے بعد پردہ گرا دیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ اس تیز رفتار سلسلہ واقعات کی تازہ کڑیاں خاصی سنسنی خیز ہیں، تماشائی اپنی سیٹوں پر ’’آن دی ایج‘‘ ON THE EDGEنظر آرہے ہیں۔
_____
ایک واقعہ سنجیدہ نوعیت کا ہوا لیکن اس کے ساتھ ایک لطیفہ بھی جڑا ہے۔ لطیفہ پہلے سن لیجئے، مطلب دوبارہ سن........
© Nawa-i-Waqt
visit website