ٹھٹھری ہوئی انتخابی مہم
کتنے ہفتے ہو گئے، دھوپ نہیں نکلی اور سردی کی سختی کم ہی نہیں ہو رہی۔ ہو بھی کیسے، دھوپ نکلے تو تمازت آئے۔ رات کو اندھیرا ہے تو دن میں کم اندھیرا۔ جوش کے ایک شعر کا تیا پانچا ملاحظہ فرمائیے
’’سرمئی ‘‘ دھوپ ہے، ’’سلیٹی‘‘ سایہ
رہتا ہے سیماب ’’سردیت‘‘ چھایا۔
لفظ ’’سرمئی‘‘ کو آپ دونوں طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ چاہے تو سر کی مناسبت سے ’س‘ پر پیش لگا لیں، چاہے تو س پر زبر لگا کے اسے سرمائی کا مخفف بنا لیں۔ انتخابات کاموسم بھی اسی سردی سے ٹھٹھر سا گیا ہے۔
بہرحال انتخابی مہم چل رہی ہے۔ اپنا اپنا انداز سیاسی جماعتوں کا ہے۔ بیشتر جماعتیں جلسے منعقد کر رہی ہیں، مسلم لیگ جلسے ملتوی کر رہی ہے۔ منعقد اور ملتوی کا فرق انداز اپنا اپنا کے زمرے میں آتا ہے۔ سبھی جماعتوں نے منشور دے دئیے، مسلم لیگ کے منشور کی تیاری تاحال جاری ہے، گرمیوں کے آتے آتے منشور بھی آ جائے گا۔ سبھی جماعتیں بتا رہی ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کو کیا ریلیف دیں گی۔ بس مسلم لیگ نون نہیں بتا رہی۔ ایک لیگی ذریعے سے اس بابت پوچھا تو فرمایا، ہم نے جتنا ریلیف دینا تھا، شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے 16 ماھی دور میں دے دیا، عوام پہلے وہ ریلیف تو ’’خرچ‘‘ کر لیں، پھر آگے کی بات ہو گی۔ یعنی اگلا ریلیف اس الیکشن میں نہیں، اگلے میں ملے گا (اگر تب تک مسلم لیگ بچ پائی تو…)۔
____
پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں میں جلسے کر رہی ہے، پی ٹی آئی کا کم و بیش سارا زور پختونخواہ پر لگ رہا ہے جہاں اسکا نیا روپ کسی پختون قوم پرست جماعت کا لگتا ہے۔........
© Nawa-i-Waqt
visit website