غزہ سے خبر آئی ہے کہ اسرائیل کی بمباری سے اب تک شہید ہونے والے تیرہ ہزار بچوں میں سے اڑھائی تین ہزار وہ ہیں جو بم لگنے سے نہیں مرے۔ ان کے جسم پر بم کا ٹکڑا لگا نہ وہ ملبے تلے دب کر ہلاک ہوئے۔ یہ وہ تھے بم کے مسلسل دھماکوں نے جن کے ننّھے منّے دل پھاڑ دئیے۔ نہ سمجھ آنے والی دہشت نے انہیں مار ڈالا۔ زیادہ تر ان بچوں کی عمریں دو تین سال سے کم تھیں۔ اس سے زیادہ عمر والے بچے جتنے بھی مرے، بم گرنے ، بارود سے یا ملبے کا ٹکڑا لگنے سے یا ملبے تلے دب کر مرے۔
یہاں دکھی ہونے کی ضرورت نہیں، بس یہ حساب لگائیے کہ پچھلے چار ماہ سے کبھی نہ رکنے والی بمباری میں ایک اوسط بچّہ اب تک کتنے بم دھماکوں کی آوازیں اپنے قریب سے سْن چکا ہو گا۔ وہ ایک روز میں کتنے بم اپنے آس پاس پھٹتے دیکھتا ہے۔ ہم ایک دن میں اپنے آس پاس کتنے بم پھٹتے دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ بلکہ اکثریت ان کی ہے جو اپنے اردگرد بم پھٹتا دیکھیں تو ٹرامے میں، دو یا اس سے زیاد ہ بموں کو گرتے دیکھیں تو کاما میں چلے جاتے ہیں۔ آدھی رات کو ایک بم گر جائے تو باقی رات کوئی سو پائے، ممکن ہی نہیں۔ فلسطینی بچے رات بھر کی بمباری کے بعد، اگر صبح کو ذرا سا وقفہ ہو تو ، اپنے ٹوٹے پھوٹے کھلونے لے کر باہر نکل آتے ہیں اور تب تک ملبے کے ڈھیر پر کھیلتے رہتے ہیں جب تک اگلی بمباری میں ان کی باری نہ آ جائے۔ غزہ والوں کے ڈی این اے کی کمپوزیشن کیا ہے، سائنس دانوں کو کسی نہ کسی دن تحقیق کرنا ہو گی۔
______
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے اشارے ملے ہیں۔
اشارے کا لفظ ملاحظہ فرمائیے۔ 30 ہزار سے زیادہ شہری چار ماہ میں مار دئیے گئے اور ایمنسٹی کے خیال میں یہ محض اشارہ ہے، ابھی اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ نسل کشی ہوئی ہے، ابھی محض اشارہ ملا ہے۔ شاید نسل کشی ہوئی ہو، شاید نہ ہوئی ہو،
______
اسرائیل نے شام میں ایرانی مفادات پر حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ ہفتہ گزراں اس نے دمشق میں ایک عمارت اڑا دی جس میں پاسداران انقلاب کے پانچ چوٹی کے جرنیل مارے گئے، ایک جرنیل شامی فوج کا اور ایک کمانڈر حزب اللہ کا بھی مارا گیا۔
ایران نے جواب میں مثالی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور بدلہ لینے کیلئے پاکستان یا کردستان پر ایک بھی جوابی حملہ نہیں کیا۔ حالانکہ کر سکتا تھا۔
______
بلوم برگ کی اس رپورٹ پر حقیقی آزادی کے سربکف (اگرچہ مسلسل روپوش) مجاہد بہت ناراض ہیں جس میں اس نے نوا ز شریف دور کی معاشی ترقی کی تعریف کی تھی۔ بظاہر لگتا ہے کہ بلوم برگ نے ’’لفافہ‘‘ وصول کیا ہو گا۔ اچھا خاصا تگڑا لفافہ!
بلوم برگ نے مزید کہا ہے کہ گریٹ خان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور نواز شریف کی مقبولیت میں تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ بلوم برگ نے ایک نہیں، دو لفافے لئے ہیں۔ بڑے اچھے خاصے تگڑے لفافے !
______
ماضی میں گریٹ خان کو مقبول ترین لیڈر قرار دینے والے ایک اور سروے ادارے نے اپنے نئے سروے میں نواز شریف کو مقبول ترین قرار دے دیا ہے۔ پنجاب کے حوالے سے اس ادارے ’’ پبلک اوپینئین ریسرچ" نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو 45 فیصد جبکہ پی ٹی آئی کو 35 فیصد لوگ ووٹ دینگے جبکہ ایسے لوگوں کی تعداد 51 فیصد ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن ن لیگ ہی جیتے گی۔
کیا سروے کمپنیاں ایک کے بعد ایک کے حساب سے ’’قبلہ‘‘ تبدیل کر رہی ہیں؟ نہیں ، دراصل وہ ’’ورچوئل ریالیٹی‘‘کی دنیا سے نکل کر صرف ’’ریالٹی‘‘ کی دنیا میں واپس آ رہی ہیں۔
ورچوئل ریالٹی کی دنیا میں اب بھی پی ٹی آئی کا ڈنکا بجتا ہے (خیال رہے، ڈنکا کی مونث ڈنکی نہیں ہے)
نواز شریف کی مقبولیت اس سے بھی سوا ہوتی اگر جناب شہباز شریف اپنی 16 ماہ کی وزارت عظمیٰ کے دوران کاروبار حکومت کی طرف تھوڑی بہت توجہ کر لیتے۔ لیکن وہ نہیں کر سکے۔ دراصل انہیں فوٹو سیشنز، اپنی تشہیر کے اشتہارات کی تیاری اور غیر ملکی ’’تفریحی‘‘ دوروں سے ہی فرصت نہ ملی ورنہ آدمی تو وہ بھی تھے کام کے!
______
اطلاع ہے کہ گریٹ خان الیکشن کے قریب جا کر اپنا پلان سی جاری کرنے والے ہیں یعنی اپنی سیاسی شطرنج کی سب سے بڑی چال چلنے والے ہیں یعنی کہ تمام سپر اور ٹرمپ اور ماسٹر کارڈ کھیل چکنے کے بعد آخری سپریم، ٹرمپیسٹ اور ماسٹر لسٹ کارڈ کھیلنے والے ہیں۔
یہ الیکشن کے بائیکاٹ کا کارڈ ہو گا، ذرائع یہی بتا رہے ہیں۔ یعنی وہ انتخابی عمل سے باہر ہونے والے ہیں۔ ماضی میں وہ قومی اسمبلی سے باہر ہوئے، پھر دو صوبائی اسمبلیوں سے باہر ہونے کے کارڈ کامیابی سے کھیل چکے ہیں جس کے انجام کار کے طور پر بالآخر انہیں اندر ہونا پڑا۔
حلقہ ہائے انقلاب کو امید ہے کہ ماضی کے کارڈز کی طرح یہ حتمی کارڈ بھی موثر اور مثبت نتائج برآمد کرنے میں کامیاب رہے گا۔
اس سپریم کارڈ کی باری آنے میں ابھی ہفتہ عشرہ باقی ہے لیکن اس سے پہلے وہ ایک اور کارڈ آج سے دو روز بعد یعنی پرسوں ، اتوار کے روز کھیلنے کا اعلان وہ فرما چکے ہیں۔ یہ کہ قوم ایک بار پھر باہر آ جائے۔
کیا ویسے ہی جیسے 9 مئی کو باہر آئی تھی؟
______
سوشل میڈیا کے ایک بڑے میڈیم ٹک ٹاک نے پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کہا ہے کہ نفرت پھیلانے والا مواد، فیک اور جعلی خبریں اور تبصرے اور جھوٹا مواد ا س پر اپ لوڈ ہونے کے فوراً بعد ہٹا دیا جائے گا۔ نیز دھمکی آمیزمواد تشدد کی ترغیب دینے والے مواد، اشتعال پھیلانے یعنی گالم گلوچ کو بھی نہ صرف ہٹا دیا جائے گا بلکہ ایسے صارفین کو بلاک کر دیا جائے گا۔
افسوس، یہاں بھی پی ٹی آئی کو ’’لیول پلے انگ‘‘ فیلڈ سے محروم کر دیا جائے گا۔
اب ہم ’’انقلاب‘‘ کیسے لائیں گے۔

سعودی فرمانروا نے اہم شاہی فرمان جاری کر دیا

QOSHE - اب ہم انقلاب کیسے لائیں گے - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اب ہم انقلاب کیسے لائیں گے

12 26
26.01.2024

غزہ سے خبر آئی ہے کہ اسرائیل کی بمباری سے اب تک شہید ہونے والے تیرہ ہزار بچوں میں سے اڑھائی تین ہزار وہ ہیں جو بم لگنے سے نہیں مرے۔ ان کے جسم پر بم کا ٹکڑا لگا نہ وہ ملبے تلے دب کر ہلاک ہوئے۔ یہ وہ تھے بم کے مسلسل دھماکوں نے جن کے ننّھے منّے دل پھاڑ دئیے۔ نہ سمجھ آنے والی دہشت نے انہیں مار ڈالا۔ زیادہ تر ان بچوں کی عمریں دو تین سال سے کم تھیں۔ اس سے زیادہ عمر والے بچے جتنے بھی مرے، بم گرنے ، بارود سے یا ملبے کا ٹکڑا لگنے سے یا ملبے تلے دب کر مرے۔
یہاں دکھی ہونے کی ضرورت نہیں، بس یہ حساب لگائیے کہ پچھلے چار ماہ سے کبھی نہ رکنے والی بمباری میں ایک اوسط بچّہ اب تک کتنے بم دھماکوں کی آوازیں اپنے قریب سے سْن چکا ہو گا۔ وہ ایک روز میں کتنے بم اپنے آس پاس پھٹتے دیکھتا ہے۔ ہم ایک دن میں اپنے آس پاس کتنے بم پھٹتے دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ بلکہ اکثریت ان کی ہے جو اپنے اردگرد بم پھٹتا دیکھیں تو ٹرامے میں، دو یا اس سے زیاد ہ بموں کو گرتے دیکھیں تو کاما میں چلے جاتے ہیں۔ آدھی رات کو ایک بم گر جائے تو باقی رات کوئی سو پائے، ممکن ہی نہیں۔ فلسطینی بچے رات بھر کی بمباری کے بعد، اگر صبح کو ذرا سا وقفہ ہو تو ، اپنے ٹوٹے پھوٹے کھلونے لے کر باہر نکل آتے ہیں اور تب تک ملبے کے ڈھیر پر کھیلتے رہتے ہیں جب تک اگلی بمباری میں ان کی باری نہ آ جائے۔ غزہ والوں کے ڈی این اے کی کمپوزیشن کیا ہے،........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play