مشرق وسطیٰ کی صورتحال دیکھو کیسے اچانک دھماکہ خیز ہو گئی۔ امریکہ نے شام اور عراق میں ایرانی پراکسیز پر بڑے حملے کئے ، ایک ہی دن میں 85 اڈّے اڑا ڈالے۔ یہ حملے اردنی علاقے میں امریکی اڈے ٹاور 22 پر ایک پراکسی کے حملے کے جواب میں کئے گئے۔ اس حملے میں امریکہ کے 40 سے زیادہ فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ امریکی حملوں سے ایرانی پراکسیز حزب اللہ، اور حزب اللہ بریگیڈ (عراق) سمیت کئی تنظیموں کا سارا گولہ بارود ضائع ہو گیا۔ عراقی تنظیم حزب اللہ بریگیڈ کا کہنا ہے کہ اس کے /50 ارکان مارے گئے۔ان میں ایک بڑا کمانڈر ابو عزرائیل بھی مارا گیا۔ ابو عزرائیل یعنی عزرائیل کا باپ۔ ایسا نام پہلے کبھی نہیں سنا، کوئی خاکی بشر کسی فرشتے کا باپ ہو سکتا ہے؟۔ بہرحال عزرائیل آپ اور ابو عزرائیل کو ساتھ لے گیا۔
عراقی اور شامی صورتحال کا فرق یہ ہے کہ شام میں ایران کے بہت سے فوجی اور رضا کار تھے نیز لبنان کی حزب اللہ بھی، اب یہ بیشتر لوگ اپنے اپنے وطن جا چکے ہیں۔ جس سے شامی حکومت اور اس کے صدر بشارالاسد کو پریشانی لاحق ہو سکتی ہے، عراق میں جملہ پراکسیز کے رضاکار مقامی یعنی عراقی تھے۔ ایران انہیں ہتھیار اور پیسے بھیجتا تھا۔ اب یہ رضاکار تو وہیں رہیں گے کہ ان کا اپنا وطن ہے لیکن ان کیلئے دوبارہ اڈے بنانا یا تباہ شدہ اڈے ازسرنو تعمیر کرنا بہت مشکل ہو گا کیونکہ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ دونوں ملکوں پر اس کے حملے مرحلہ وار اور تسلسل سے جاری رہیں گے۔ جونہی کوئی اپنے اڈوں کی طرف پلٹا یا نیا اڈہ بنانے کی کوشش کی، اس پر حملہ ہو جائے گا۔
عراقی حکومت امریکہ سے بہت ڈری ہوئی ہے۔ اس نے امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایران کیخلاف ایک بہت بڑا مالیاتی قدم اٹھایا ہے جس سے ایران کی مالیات کو بڑا دھچکا لگے گا۔ عراق نے 8 بڑے بنکوں پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ڈالروں کا کاروبار نہیں کر سکتے۔ امریکہ نے ایران کا تیل عالمی منڈی میں بیچنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ چنانچہ وہ اپنا تیل عراق کو دیتا ہے، عراق اسے بیچتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والے ڈالر ایران کو ان بنکوں کے ذریعے دیتا ہے یوں ایرانی معیشت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ اب یہ سلسلہ بند ہو گیا۔
پہلے ایران نے کہا تھا کہ امریکہ نے عراق شام میں کوئی حرکت کی تو مزہ چکھا دیں گے لیکن ان حملوں پر ایران خاموش ہے۔ ایرانی حکام نے البتہ یہ کہا ہے کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو جواب دیں گے یعنی شام و عراق سے اس نے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ عراق اور شام میں امریکہ کے بڑے بڑے جو بھی اڈے قائم ہیں جن میں فوجی تو اتنے زیادہ نہیں ہیں یعنی عراق میں اڑھائی ہزار اور شام میں محض نو سو لیکن ان اڈوں پر جہاز، ہیلی کاپٹر، ڈرون، میزائل اور دوسرے ہتھیار اور جاسوسی کا سازو سامان بہت اہم ہے۔ دونوں ملکوں کے کرد اکثریتی علاقے عملاً اگرچہ غیر اعلانیہ آزاد خودمختار کرد ریاستیں بن چکے ہیں اور امریکی موجودگی ان کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
شام میں الیپو (حلب) کے جنوب میں ایک بہت بڑا روسی اڈہ بھی ہے جہاں سینکڑوں فوجی اور بے حساب طیارے موجود ہیں۔ امریکی حملوں پر روس نے کوئی ردّعمل نہیں دیا۔
ایران کی سب سے کامیاب پراکسی حوثی ہیں جن کا شمالی یمن کے بیشتر رقبے پر قبضہ ہے۔ جنوبی یمن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اتحادیوں کے پاس ہے۔ شمالی یمن سے بحیرہ قلزم میں امریکی برطانوی اسرائیلی جہازوں پر لگاتار حملے ہوئے جس کے بعد امریکہ نے اس سمندر میں اپنی حملہ آور اور جاسوس کشتیوں کی تعداد بڑھا دی اور پھر شمالی یمن پر پے درپے فضائی حملے کئے۔ یہ حملے ٹارگٹڈ تھے اور ان میں حوثیوں کے بہت سے زیر زمین اسلحہ گودام، میزائلوں کے ذخیرے اور دوسرے فوجی اڈے تباہ ہوئے۔ حوثیوں کی فضائیہ صرف ہیلی کاپٹروں اور ڈرون طیاروں پر مشتمل ہے۔ امریکی حملوں سے ہیلی کاپٹر کم و بیش تمام تباہ ہو گئے اور خاصی مقدار میں ڈرون بھی۔ پھر بھی ان کے پاس اتنے ہتھیار موجود رہیں گے کہ وہ بحیرہ قلزم میں اپنے حملے جاری رکھیں اگرچہ امریکی نظام اب پہلے سے زیادہ موثر ہے اور زیادہ تر میزائل اور ڈرون اپنے اہداف تک پہنچنے سے قبل ہی تباہ کر دئیے جاتے ہیں۔ حوثیوں کو تمام تر ہتھیار میزائل اور ڈرون ایران دیتا ہے لیکن امریکی نگران نظام نے ایران سے ہتھیار آنے کا سلسلہ روک دیا ہے۔ پھر بھی حوثی ان ہتھیاروں سے کلی طور پر محروم اس لئے نہیں ہوں گے کہ ایرانی ماہرین کی نگرانی میں خود شمالی یمن کے اندر ڈرون طیاروں اور چھوٹے میزائلوں کے کارخانے کام کر رہے ہیں۔
حالیہ واقعات سے ان مذکورہ بالا تینوں ممالک کے اندر کچھ تبدیلیاں مرتب ہونے کا امکان ہے۔ یہ سارا سلسلہ واقعات غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے جڑا ہوا ہے جہاں اسرائیل کی شدید بمباری جاری ہے، ہر روز اوسطاً دو سو فلسطینی شہید، اس سے زیادہ زخمی ہو رہے ہیں۔ اب بمباری آبادیوں پر نہیں، مہاجر کیمپوں اور خیمہ بستیوں پر ہو رہی ہے اور اس سارے علاقے میں قحط کا سماں ہے لوگ روٹی پانی اور دوائوں سے محروم ہیں، گزشتہ شب ایک کیمپ میں ایک خاتون سردی سے، ایک بچہ بھوک سے مر گیا۔ اسرائیل نے شمالی غزہ خالی کر دیا ہے، وہاں حماس کی انتظامیہ اور پولیس واپس آ گئی ہے۔ اطلاع کے مطابق کچھ فلسطینی بھی واپس آئے ہیں لیکن ان کی تعداد درجنوں میں ہے ، سینکڑوں میں نہیں۔ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو گولی مار کر بھی قتل کر رہے ہیں اور ستم کا نیا طریقہ یہ نکالا ہے کہ ماں اپنے بچے کے ساتھ یا باپ بیٹا آ رہے ہوں تو دونوں میں سے ایک کو مار دیتے ہیں، دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک باپ اپنے گیارہ سال کے زخمی بیٹے کو اٹھا کر پناہ کیلئے نقل مکانی کر رہا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں نے روکا، گیارہ سالہ بچے کو گولی مار کر شہید کر دیا اور باپ سے کہا، تم جائو، تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ ایک ماں سے اس کے دو بچے چھینے، دونوں کو گولی مار کر مار دیا اور ماں سے کہا، تم جا سکتی ہو۔ ان میں سے ایک کی عمر تین سال تھی۔
اسرائیل کی تجارت بحیرہ احمر میں بند ہو چکی تھی۔ اس کا ازالہ ہو گیا ہے، سعودی عرب اور امارات اور اردن نے وہ زمینی کاریڈور کھول دیا ہے جو خلیج فارس کی بندرگاہ سے شروع ہو کر اسرائیل پر ختم ہوتا ہے۔ رات دن اس شاہراہ پر اسرائیل آنے جانے والے لڑکوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ اسرائیل اتنا بھی لاوارث نہیں ہے جتنا حماس والوں نے سمجھ لیا تھا۔

انگلینڈ میں 285 برس پرانا لیموں ایک ہزار 780 امریکی ڈالرز میں نیلام

QOSHE - مشرق وسطیٰ کے بدلتے لمحے - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مشرق وسطیٰ کے بدلتے لمحے

11 17
07.02.2024

مشرق وسطیٰ کی صورتحال دیکھو کیسے اچانک دھماکہ خیز ہو گئی۔ امریکہ نے شام اور عراق میں ایرانی پراکسیز پر بڑے حملے کئے ، ایک ہی دن میں 85 اڈّے اڑا ڈالے۔ یہ حملے اردنی علاقے میں امریکی اڈے ٹاور 22 پر ایک پراکسی کے حملے کے جواب میں کئے گئے۔ اس حملے میں امریکہ کے 40 سے زیادہ فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ امریکی حملوں سے ایرانی پراکسیز حزب اللہ، اور حزب اللہ بریگیڈ (عراق) سمیت کئی تنظیموں کا سارا گولہ بارود ضائع ہو گیا۔ عراقی تنظیم حزب اللہ بریگیڈ کا کہنا ہے کہ اس کے /50 ارکان مارے گئے۔ان میں ایک بڑا کمانڈر ابو عزرائیل بھی مارا گیا۔ ابو عزرائیل یعنی عزرائیل کا باپ۔ ایسا نام پہلے کبھی نہیں سنا، کوئی خاکی بشر کسی فرشتے کا باپ ہو سکتا ہے؟۔ بہرحال عزرائیل آپ اور ابو عزرائیل کو ساتھ لے گیا۔
عراقی اور شامی صورتحال کا فرق یہ ہے کہ شام میں ایران کے بہت سے فوجی اور رضا کار تھے نیز لبنان کی حزب اللہ بھی، اب یہ بیشتر لوگ اپنے اپنے وطن جا چکے ہیں۔ جس سے شامی حکومت اور اس کے صدر بشارالاسد کو پریشانی لاحق ہو سکتی ہے، عراق میں جملہ پراکسیز کے رضاکار مقامی یعنی عراقی تھے۔ ایران انہیں ہتھیار اور پیسے بھیجتا تھا۔ اب یہ رضاکار تو وہیں رہیں گے کہ ان کا اپنا وطن ہے لیکن ان کیلئے دوبارہ اڈے بنانا یا تباہ شدہ اڈے ازسرنو تعمیر کرنا بہت مشکل ہو گا کیونکہ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ دونوں ملکوں پر اس کے حملے مرحلہ وار اور تسلسل سے جاری رہیں گے۔ جونہی کوئی اپنے اڈوں کی طرف پلٹا یا نیا اڈہ بنانے کی کوشش کی، اس پر حملہ ہو جائے گا۔
عراقی........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play