بہت پہلے کی بات ہے، کراچی سے ایک دیدہ زیب اور معیاری اخبار ’’انجام‘‘ کے نام سے نکلا کرتا تھا۔ اس پر کیا بیتی کہ مالکوں کو اسے حکومت کے ہاتھ بیچنا پڑا۔ حکومت نے اسے پریس ٹرسٹ میں شامل کر دیا ملازم کچھ فارغ، کچھ رکھ لئے ہوں گے اور انجام کی آخری اشاعتوں میں اعلان اس کے بند ہونے کا نہیں بلکہ یہ چھپا کہ انجام کو پریس ٹرسٹ کے اخبار میں ضم کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ انضمام کی تاریخ کے بعد مشرق کراچی سے جس پیشانی کے ساتھ شائع ہوا، اس میں ایک سطر یوں تھی کہ اس میں روزنامہ انجام بھی شامل ہے۔
پہلے دور کی صحافت اب ختم ہوئی۔ اب آپ کسی اخبار کی پیشانی پر ہاتھ یا کتاب رکھ دیں اور قاری سے کہیں بتائے کون سا اخبار ہے وہ نہیں بتا سکے گا۔ سب ایک جیسے لے آئوٹ، ایک جیسی سرخیوں اور ایک جیسی کمپیوٹرائزڈ کتابت کے ساتھ ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔ سرخیوں کا انداز اور اسلوب بھی یکساں لیکن پہلے یہ نہیں ہوتا تھا۔ ہر اخبار کی شکل و صورت ، لے آئوٹ سرخیوں کا سٹائل اور اسلوب الگ ہوتا تھا اور ہر اخبار کا اپنا ’’ذائقہ‘‘ جی ہاں، ذائقہ۔ اخبار کی پیشانی پر ہاتھ رکھ دو، قاری پھر بھی بتا دیتا تھا کہ کون سا اخبار ہے۔ آج کا معاملہ مختلف ہے۔ ایک ہی قطار میں کْھلی نان چھولے کی دکانیں، ایک جیسے نان، ایک جیسے چھولے، بس دکانوں کے اوپر بورڈ پر نام الگ الگ۔
خیر، انجام کے قارئین کو مشرق میں انجام کی کوئی جھلک نہیں ملی۔ وہ اوّل سے آخر تک مشرق ہی تھا۔ انجام بس نام کی حد تک ضم ہوا تھا، اصل میں وہ انجام کو پہنچ چکا تھا، ایک دو قلمکار اس کے ضرور مشرق کے ادارتی عملے میں شامل ہوئے۔ انضمام کے معنے دراصل یہ تھے کہ اس کے اثاثے اب پریس ٹرسٹ کی ملکیت ہو گئے۔
آمدم بر مطلب ، حکومت کے دفاتر پر ایسا بورڈ آویزاں کرنے کی کوئی روایت نہیں جس پر لکھا ہو کہ یہ کس کی حکومت ہے۔ روایت ہوتی تو اب جبکہ زرداری حکومت بننے والی ہے، بورڈ پر یہ عبارت لکھی ہوتی:۔
زرداری حکومت
اس میں شہباز حکومت بھی شامل ہے
____
مسلم لیگ کے حوالے سے بیان چھپا ہے کہ حکومت کے نگران نواز شریف ہوں گے۔ امید ہے مسلم لیگ کے بیشتر اداس کارکنوں کے چہرے تھوڑے تھوڑے کھل اٹھیں گے لیکن یہ امید زیادہ نہیں، اس لئے کہ کچھ کا خیال بن چکا ہے اور باقی کا بننے والا ہے کہ حکومت زرداری کی بن رہی ہے جو کسی اور پر ہوں نہ ہوں، مسلم لیگ پر بھاری رہیں گے۔ شہباز سپیڈ ، جس کا جلوہ 16 ماہی حکومت میں سب نے دیکھا، زرداری صاحب کی تابع مہمل ہو گی۔ جسے اس بات پر شک ہو وہ انتظار کرے، بفضلِ خدا یہ شک پہلی فرصت میں دور ہو جائے گا۔
مسلم لیگ کے کارکن انتخابی نتائج پر اتنے افسردہ نہیں تھے جتنے اس پر کہ نواز شریف وزیر اعظم نہیں بن رہے بلکہ وہ بن رہا ہے جسے زرداری نے نامزد کیا۔
لیگی کارکن سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں اور سوال پوچھ رہے ہیں۔ ان پوچھے جانے والے سوالات کی تعداد رات میں گنتا رہا، ایک درجن سے زیادہ ہیں۔ الفاظ بدل بدل کر ان گنت کارکنوں نے یہ سوال اٹھائے۔ سبھی سوال تو یہاں درج نہیں ہو سکتے۔ دو چار کا خلاصہ حاضر ہے۔
-1 شہباز شریف چار سیٹوں سے کھڑے ہوئے، چاروں پر جیت گئے، نواز شریف دو پر کھڑے ہوئے، ایک پر ہار گئے۔ انوکھی بات نیز شہباز کی چاروں سیٹوں پر پی ٹی آئی نے دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگایا، نواز کی ایک جیتی سیٹ پر یہ ملک گیر مہم کامیابی سے چلائی گئی کہ وہ تو اس سیٹ پر بھی ہار گئے تھے، آخر شب دھاندلا کر کے انہیں جتوایا گیا۔
-2 بلاول بھٹو زرداری نے پوری انتخابی مہم میں عمران خان پر تنقید کا ایک حرف کہا نہ پی ٹی آئی پر۔ مسلم لیگ پر بھی کوئی تنقید کی نہ شہباز پر۔ ان کا تمام تر توپ خانہ صرف نواز شریف پر گولہ باری کرتا رہا۔ انہیں سلیکٹڈ وزیر اعظم نامنظور تھا، خدا کا شکر ہے شہباز سلیکٹڈ نہیں، الیکٹڈ ہیں بلاول نے مان لیا)۔
-3 پیپلز پارٹی کے رہنما باجماعت نواز شریف نامنظور کہتے رہے، شہباز کا انہوں نے پرجوش ’’ویلکم‘‘ کیا۔
-4 نواز شریف کے ساتھی سمجھے جانے والے لیگی رہنما خرم دستگیر، عابد شیر علی، رانا ثنا، جاوید لطیف وغیرہ ہار گئے، شہباز کے تمام رفقائے کار جیت گئے۔
-5 شہباز کیمپ کے ایک لیگی ایم این اے نے اپنے ڈرائنگ روم میں کہا، نواز شریف کی دماغی حالت ٹھیک نہیں، وہ وزیر اعظم بننے کے قابل نہیں۔ یہ فقرہ انہوں نے خود کہا یا کسی کی فرمائش پر کہا؟۔ ڈرائنگ روم میں کہا جانے والا یہ فقرہ کس نے لیک کرایا۔
یہ بات کون ’’لیک‘‘ کر رہا ہے کہ مریم نواز کی حکومت کو چھ ماہ میں ناکام کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے حکومت کے ’بظاہر‘‘ چیف ایگزیکٹو اور صوبے کے عدلیاتی نظام کے درمیان پائی جانے والی ’’خیرسگالی‘‘ کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔
-5 فیصل واڈوڈا کو کئی ماہ پہلے سے کیسے علم تھا کہ مینڈیٹ منقسم آئے گا اور نواز شریف وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔ وہ اتنے جوش میں کیوں آ گئے کہ ٹی وی پر ، آن ایر ’’گونواز‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔
پانچوں سوالات دلچسپ ہیں، باقی سوال بھی اتنے ہی دلچسپ ہیں لیکن فی الحال درج بالا پانچ ہی کا مزہ لیجئے۔ یہ اطلاع بھی چل رہی ہے کہ زرداری صاحب اپنی کابینہ میں نواز کیمپ کے کسی رہنما کو وزیر نہیں بنائیں گے۔
____
مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کر کے بھونچال کھڑا کر دیا ہے جس کے جھٹکوں سے زرداری حکومت، جس میں شہباز حکومت بھی شامل ہے، تھوڑا بہت ہل کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے 5 نکاتی بھونچال برپا کیا ہے (1) الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، من پسند جتوائے اور ناپسند ہروائے گئے، نتیجہ مسترد کرتا ہوں (2) تحریک چلائوں گا (3) زرداری حکومت (جس میں شہباز حکومت بھی شامل ہے) کو ووٹ نہیں دو گا (4) اپوزیشن میں بیٹھوں گا (5) نواز شریف سے کہتا ہوں وہ بھی میرے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں۔
وہ تحریک چلائیں گے تو زرداری (بشمول شہباز) اس سے کیسے نمٹیں گے۔ یہ سوال لاجواب ہے۔ باقی سب چھوڑئیے، نواز شریف نے ان کا آخری نکتہ مان لیا (فرض کر لیں) تو مائنس نواز شریف کا شہبازی خواب پوری طرح شرمندہ تعبیر نہیں ہو جائے گا؟ کیا خیال ہے۔

این اے 15 مانسہرہ: نواز شریف کی درخواست کی سماعت آج ہوگی

QOSHE - زرداری حکومت اور مولانا کا بھونچال - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

زرداری حکومت اور مولانا کا بھونچال

20 0
16.02.2024

بہت پہلے کی بات ہے، کراچی سے ایک دیدہ زیب اور معیاری اخبار ’’انجام‘‘ کے نام سے نکلا کرتا تھا۔ اس پر کیا بیتی کہ مالکوں کو اسے حکومت کے ہاتھ بیچنا پڑا۔ حکومت نے اسے پریس ٹرسٹ میں شامل کر دیا ملازم کچھ فارغ، کچھ رکھ لئے ہوں گے اور انجام کی آخری اشاعتوں میں اعلان اس کے بند ہونے کا نہیں بلکہ یہ چھپا کہ انجام کو پریس ٹرسٹ کے اخبار میں ضم کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ انضمام کی تاریخ کے بعد مشرق کراچی سے جس پیشانی کے ساتھ شائع ہوا، اس میں ایک سطر یوں تھی کہ اس میں روزنامہ انجام بھی شامل ہے۔
پہلے دور کی صحافت اب ختم ہوئی۔ اب آپ کسی اخبار کی پیشانی پر ہاتھ یا کتاب رکھ دیں اور قاری سے کہیں بتائے کون سا اخبار ہے وہ نہیں بتا سکے گا۔ سب ایک جیسے لے آئوٹ، ایک جیسی سرخیوں اور ایک جیسی کمپیوٹرائزڈ کتابت کے ساتھ ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔ سرخیوں کا انداز اور اسلوب بھی یکساں لیکن پہلے یہ نہیں ہوتا تھا۔ ہر اخبار کی شکل و صورت ، لے آئوٹ سرخیوں کا سٹائل اور اسلوب الگ ہوتا تھا اور ہر اخبار کا اپنا ’’ذائقہ‘‘ جی ہاں، ذائقہ۔ اخبار کی پیشانی پر ہاتھ رکھ دو، قاری پھر بھی بتا دیتا تھا کہ کون سا اخبار ہے۔ آج کا معاملہ مختلف ہے۔ ایک ہی قطار میں کْھلی نان چھولے کی دکانیں، ایک جیسے نان، ایک جیسے چھولے، بس دکانوں کے اوپر بورڈ پر نام الگ الگ۔
خیر، انجام کے قارئین کو مشرق میں انجام کی کوئی جھلک نہیں ملی۔ وہ اوّل سے آخر تک مشرق ہی تھا۔ انجام بس نام کی حد تک ضم ہوا تھا، اصل میں وہ........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play