ٹویٹر کی بندش سے کیا حاصل ہو گا؟
جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان کے حالات نے دل ودماغ کو اکثرپریشان ہی رکھا۔ اس کے باوجود صحافت شروع کرنے کے پہلے دن سے ہمیشہ اس امید کے ساتھ مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا کہ اچھے دن یقینا آئیں گے۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ کم از کم رواں صدی کے آغاز تک ہماری حکومتوں اور افسر شاہی کے چند افراد میری دی خبروں کے بارے میں فکر مند ہوکر جس مسئلے کا ذکر ہوا، اس کے حل کیلئے مشورے طلب کرلیا کرتے۔ بتدریج مگر ایوان ہائے اقتدار میں بیٹھے افراد بے حس ہونا شروع ہوگئے۔ اب ہر کالم لکھتے ہوئے پورے اعتماد سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ اسے فقط میرے قا ری ہی پڑیں گے۔ حکمران اشرافیہ تک اس کالم میں لکھی بات نہیں پہنچے گی۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ میری لکھی کسی بات کو سیاق وسباق سے جدا کرکے حکمرانوں کے کان میں یہ ’’خبر‘‘ ڈالی جائے کہ میں نے فلاں فقرے کے ذریعے لوگوں کو تخریب پر اْکسانے کی کوشش کی ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی سے بددل ہوکر کئی برس پہلے لکھنے سے جان چھڑالینی چاہیے تھی۔ چھٹتی نہیں ہے لیکن یہ (علت) لگی ہوئی۔
گزشتہ دو دِنوں سے اب حکمرانوں سے یہ فریاد کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ خدارا سوشل میڈیا کے ٹویٹر، جسے اب ایکس کہا جاتا ہے، والے پلیٹ فارم تک رسائی میں طویل وقفے نہ آنے دئے جائیں۔ اپنی فریاد دہرانے سے قبل نہایت دیانت داری سے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ مذکورہ پلیٹ فارم نے اندھی عقیدت ونفرت میں منقسم ہوئے معاشروں میں انتشار بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے باوجود اس پلیٹ فارم کے ذریعے آپ کو پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا ہائوسز میں شائع یا نشر ہوئے مضامین اور خبروں سے بھی آگاہی میسر ہوجاتی ہے۔میں جو........
© Nawa-i-Waqt
visit website