’’بزّتی‘‘ کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔ بزّتی بے عزتی کا پنجابی مخفف ہے۔ طاقتور ملکوں میں تیز رفتار زوال کی مثال روس سے بڑھ کر نہیں مل سکتی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی ’’سامراج‘‘ بنے رہنے کی روسی خواہش کم نہ ہو سکی جو اسے بربادی کے آخری مرحلے میں بالآخر لے گئی۔ یوکرائن کی جنگ نے اس کی ’’ویل کی قمیض‘‘ کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دئیے۔ اگرچہ اس جنگ میں روس کو یوکرائن پر قدرے بالادستی ہے لیکن غور کیجئے، دس سال قبل جب اس نے یوکرائن پر حملہ کیا تھا تو کیا کہا تھا؟ یہ کہ چند گھنٹوں یا ایک آدھ دن میں ہم کیف (دارالحکومت) تک پہنچ جائیں گے۔ یہ چند گھنٹے دس سال بعد بھی پورے نہ ہو سکے۔ اس جنگ میں روس کی 400 فیصد فوج ختم ہو چکی (ہلاک و زخمی) ، آدھے سے زیادہ ٹینک بھی ’’رتبہ شہادت‘‘ پر فائز ہو چکے اور اتنی ہی بکتربند گاڑیاں بھی۔ میزائل کا گودام بھی خالی ہو گیا۔
تازہ خبریں ملاحظہ فرمائیے۔ مغربی سفارتی اور انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق روس اب اس قابل نہیں رہا کہ ہتھیاروں کے نئے کارخانے لگا سکے بلکہ وہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ ہتھیاروں کے پرانے ناکارہ ہوتے ہوئے کارخانے بھی ٹھیک کر سکے۔ پرانے اسلحی نظام کو مرمت کرنے کی اس کی صلاحیت بھی دم توڑ رہی ہے اور اب اس نے تیسرے فریق سے اپیل کی ہے کہ اسے ہتھیار دئیے جائیں۔
یہ تیسرا فریق کون ہے؟۔ ایک اور خبر کے مطابق ایران نے اس کی درخواست پر 400 میزائل دئیے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بھارت بنگلہ دیش سے ہتھیار مانگے یا پاکستان نیپال سے کہے کہ وہ اسے ہتھیاروں کی مد میں مدد دے۔ کہاں میں کہاں یہ ’’زوال‘‘ اللہ اللہ۔
اور ایران کے میزائل دنیا بھر میں سب سے ناکارہ تصور کئے جاتے ہیں۔ دور کیوں جائیے، چند ہفتے پہلے اس نے پاکستان، عراق اور شام پر ’’بھرپور‘‘ میزائل حملے کئے، ایک بھی ٹھکانے پر نہیں لگا، سب ٹھکانے البتہ لگ گئے۔
حوثیوں کے پاس سارے میزائل ایران کے دئیے گئے ہیں۔ وہ انہیں بحیرہ احمر میں چند میل کے فاصلے پر داغ رہا ہے لیکن دس میں سے صرف ایک ہی میزائل ہٹ کر پاتا ہے حالانکہ جیسا کہ بتایا، ہدف سینکڑوں نہیں، چند میل کی دوری پر ہوتا ہے۔ کچھ سال پہلے تک حوثی ہر روز سعودی عرب پر ایک یا دو ’’بیلسٹک‘‘ میزائل داغتے تھے، صرف ایک کے سوا باقی سب راستے ہی میں بھگت جاتے تھے یا غلط جگہ گر جاتے تھے۔ یہ ایک میزائل جو ٹھیک لگا، اس نے ایک آئل ریفائنری کو نشانہ بنایا جس میں آگ لگ گئی اور اس کا خاصا حصہ تباہ ہو گیا۔ یہ واحد کامیابی تھی اور اس حملے کو تو عالمگیر شہرت ملی تھی جس میں ایک میزائل مکّہ پر داغا گیا لیکن وہ مکّہ سے کئی میل مشرق میں جا گرا۔
آرمینیا آذر بائیجان جنگ میں روس نے سینکڑوں ڈرون طیارے ایران سے لے کر آرمینیا کو دئیے (ایران براہ راست یہ میزائل آرمینیا کو نہیں دینا چاہتا تھا کیونکہ ایران میں آذربائیجان نام کے صوبے میں عوام بھڑک اٹھتے۔ اس صوبے کی سرحد جمہوریہ آذربائیجان سے ملتی ہے)۔ لیکن یہ سارے ڈرون آذربائیجان کو ترکی کی طرف سے دئیے گئے ڈرون جہازوں نے مار گرائے اور آرمینیا کو تباہ کن شکست ہوئی۔
روس کی معیشت کی گردن اس وقت چین کے پنجے میں ہے۔ اس کی مالیات کو سو فیصد سہارا محض چین کا ہے۔ وہ آنکھیں پھیر لے تو روس کی معیشت دھڑام کر کے زمین پر آ رہے۔ روسی عوام کیلئے ڈبل روٹی خریدنا ’’عیاشی‘‘ بن گیا ہے۔ شیرخوار بچوں کی اموات کی شرح بڑھ گئی۔ غلط معاشی پالیسیوں سے کچھ فیصد آبادی معاشی ڈان بن چکی۔ دوردراز کے علاقوں کی ماتحت ، بظاہر نیم خودمختار جمہوریائوں جیسے کہ تاتارستان یا داغستان یا چیچنیا وغیرہ کی معیشت بہتر ہے۔ روس کی تلپٹ ہو رہی ہے۔
شام میں روس اور ایران نے مل کر دس لاکھ سویلین آبادی مار ڈالی۔ سویلینز کا اس طرف سے صفایا کسی طور اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ سپرپاور ہیں۔
_____
اسرائیل کے ایک عوامی سروے میں 55 فیصد شہریوں نے رائے دی ہے کہ اسرائیل کبھی بھی حماس کو شکست نہیں دے سکتا، ہاں ، وہ غزہ کی سویلین آبادی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ غزہ کی جنگ تاریخ کی ایک منفرد جنگ ہے جس میں حماس نے اپنے ہر ایک گوریلے کے مرنے کی قیمت دس فوجی مار کر وصول کی ہے اور اب تو جنگ کا دائرہ مغربی کنارے میں ، اسرائیل کے ارادت مند محمود یٰسین کے زیر قبضہ علاقے تک پھیل گیا ہے، کئی شہروں میں جم کر لڑائی ہوئی ہے۔
صدر بائیڈن کا امریکہ جنگ بندی نہیں چاہتا اس نے سلامتی کونسل میں تیسری بار جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ حالانکہ چند ہی روز پہلے بائیڈن کا یہ بیان آیا تھا کہ غزہ میں بہت سے لوگ بے گناہ مارے گئے۔ کل برطانوی شہزادہ چارلس نے بھی کہا کہ بہت لاشیں گر چکیں، جنگ بند ہونی چاہیے۔
ایک تعجب خیز تبدیلی سعودی عرب اور مصر کی پالیسی میں آئی ہے۔ دونوں نے کل جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔ دراصل اسرائیل کا فوجی نقصان بہت زیادہ ہوا جس پر تشویش قدرتی ہے۔
مصر کی سازش کو جزوی کامیابی ملی ہے۔ مصر چاہتا ہے کہ غزہ سے سب فلسطینیوں کا انخلا کر کے سوئز کے صحرا میں ’’ٹیلہ بند‘‘ کر دیا جائے تاکہ غزہ کی سرسبز اور سونا اگلنے والی زمین اسرائیل کو مل جائے۔ اسرائیل مسلسل بمباری کر کے فلسطینیوں کو سرحد کی طرف دھکیل رہا ہے۔ پہلے مرحلے میں دس ہزار شہری سویز کے علاقے میں داخل ہو گئے۔
چند دنوں تک غزہ کی بھوکی آبادی بھوک کی تاب نہ لا کر مرنا شروع کر دے گی۔ خوراک فراہم کرنے والے واحد ادارے انروا UNRWA کو اسرائیل نے غزہ سے نکال دیا ہے۔ اب غزہ پر بھوک کا راج ہے۔ کل ہی ایک ویڈیو دیکھی، ایک فلسطینی کہہ رہا تھا، عالمی برادری ہماری مدد کرے، ہمیں لاکھوں کی تعداد میں پتھروں کی فوری ضرورت ہے تاکہ ہم انہیں اپنے پیٹ پر باندھ سکیں۔
_____
امریکہ نے پاکستان میں حکومت سازی کو پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات پاکستان کو اپنے قوانین کے مطابق کرنی چاہیے۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟۔ یہی کہ امریکہ نے گویا اس لمبے چوڑے نام والی جماعت ، آل پاکستان سنی انصاف تحریک اتحاد کونسل کی یہ درخواست مسترد کر دی ہے کہ اسے حاصل 90 سیٹوں کو وہ دوگنا کر کے 180 کر دے۔ ویسے اب یہ تعداد 90 سے کم ہو کر 82 رہ گئی ہے تو مطالبے کا حجم بھی کم ہو کر 184 رہ گیا ہو گا۔
_____
جن ’’لازم الاحترام‘‘ عناصر نے 2017ء میں کسی فارم کی عبارت میں ایک لفظ کی جگہ بالکل اسی مفہوم کا متبادل لفظ لانے پر قیامت برپا کر دی تھی، انہی حضرات نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ایک بالکل قانونی اور درست فیصلے کو ’’غلط‘‘ قرار دے کر پھر سے طوفان اٹھا دیا ہے، ان کے قتل کے فتوے دئیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دو ’’کثیر الاشاعت‘‘ ولاگر آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں اور ریاست حسب دستور، حسب معمول بے بس ہے۔ اس بے بسی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!

معروف صحافی عمران ریاض خان کو گرفتار کرنے کی اطلاعات

QOSHE -  زوال روسیا (ہ) - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 زوال روسیا (ہ)

11 6
23.02.2024

’’بزّتی‘‘ کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔ بزّتی بے عزتی کا پنجابی مخفف ہے۔ طاقتور ملکوں میں تیز رفتار زوال کی مثال روس سے بڑھ کر نہیں مل سکتی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی ’’سامراج‘‘ بنے رہنے کی روسی خواہش کم نہ ہو سکی جو اسے بربادی کے آخری مرحلے میں بالآخر لے گئی۔ یوکرائن کی جنگ نے اس کی ’’ویل کی قمیض‘‘ کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دئیے۔ اگرچہ اس جنگ میں روس کو یوکرائن پر قدرے بالادستی ہے لیکن غور کیجئے، دس سال قبل جب اس نے یوکرائن پر حملہ کیا تھا تو کیا کہا تھا؟ یہ کہ چند گھنٹوں یا ایک آدھ دن میں ہم کیف (دارالحکومت) تک پہنچ جائیں گے۔ یہ چند گھنٹے دس سال بعد بھی پورے نہ ہو سکے۔ اس جنگ میں روس کی 400 فیصد فوج ختم ہو چکی (ہلاک و زخمی) ، آدھے سے زیادہ ٹینک بھی ’’رتبہ شہادت‘‘ پر فائز ہو چکے اور اتنی ہی بکتربند گاڑیاں بھی۔ میزائل کا گودام بھی خالی ہو گیا۔
تازہ خبریں ملاحظہ فرمائیے۔ مغربی سفارتی اور انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق روس اب اس قابل نہیں رہا کہ ہتھیاروں کے نئے کارخانے لگا سکے بلکہ وہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ ہتھیاروں کے پرانے ناکارہ ہوتے ہوئے کارخانے بھی ٹھیک کر سکے۔ پرانے اسلحی نظام کو مرمت کرنے کی اس کی صلاحیت بھی دم توڑ رہی ہے اور اب اس نے تیسرے فریق سے اپیل کی ہے کہ اسے ہتھیار دئیے جائیں۔
یہ تیسرا فریق کون ہے؟۔ ایک اور خبر کے مطابق ایران نے اس کی درخواست پر 400 میزائل دئیے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بھارت بنگلہ دیش سے ہتھیار مانگے یا پاکستان نیپال سے کہے کہ وہ اسے ہتھیاروں کی مد میں مدد دے۔ کہاں میں کہاں یہ ’’زوال‘‘ اللہ اللہ۔
اور ایران کے میزائل دنیا بھر میں سب سے ناکارہ تصور کئے........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play