الیکشن کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ بھی طے ہوا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنا لی ، سندھ میں پیپلز پارٹی نے۔ پختونحواہ میں’آزاد‘ حکومت ہے بلکہ اب تو حقیقی طور پر آزاد۔ کئی علاقوں میں ٹی ٹی پی نے غلبہ جما لیا ہے اور ایک صحافی کی رپورٹ کے مطابق بازاروں مارکیٹوں میں ان کا راج ہے، جو چاہے، کسی بھی دکان سے کتنی بھی مقدار میں اٹھانا چاہیں، اٹھا لیتے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں، مزید براں انہوں نے اپنی رٹ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے جا بجا ناکے، ٹول ٹیکس بھی بنا لئے ہیں اور بہت سے مفید ٹیکس نافذ کر رہے ہیں۔ حقیقی آزادی کی منزل گویا مل گئی لیکن بعض ستارہ شناسوں کا کہنا ہے کہ انہیں، یہ تو حقیقی آزادی کا محض ٹریلر ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
بلوچستان میں تین تہائی کے فارمولہ کی حکومت ہے۔ ایک تہائی پیپلز پارٹی کو، دوسری تہائی مسلم لیگ ن کو اور تیسری تہائی وغیرہ وغیرہ کو اقتدار مل گا، وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہو گا، گویا پیپلز پارٹی کی تہائی دیگر دو تہائی پر بھاری ہو گی۔
وفاق میں حکومت کس کی ، ابھی واضح نہیں ہے۔ وفاقی حکومت مدّت پوری کر لے گی تبھی یہ اندازہ ہو سکے گا کہ کس کی حکومت تھی۔ کلیدی عہدے پیپلز پارٹی کے پاس ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ کلیدی عہدے حکومت نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم کا عہدہ ریاستی اثاثہ جاتی سیاستدان شہباز شریف کے پاس ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) فی الحال منہ دیکھتی رہ گئی کی مثال ہے۔ شہباز شریف ہردلعزیز سیاستدان ہیں، نہایت ہردلعزیز، پرویز مشرف، راحیل شریف ، جنرل باجوہ، جنرل فیض ، ثاقب نثار اور بندیال والے عمر عطا سبھی کے عزیزم رہے ہیں۔ اللہ کرے زور عزیزی ذرا زیادہ،!
______
پنجاب میں مسلم لیگ کی مریم نواز نے حلف اٹھا لیا۔ الیکشن میں انہیں 220 ووٹ ملے۔ آل پاکستان متحدہ سنّی انصاف تحریک اتحاد کونسل نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ بائیکاٹ کرنے کی وجہ نہایت ہی ٹھوس بتائی جاتی ہے۔ سپیکر کے انتخاب میں آل پاکستان متحدہ سنّی انصاف تحریک اتحاد کونسل کو 227 کے مقابلے میں 96 ووٹ ملے تھے اور انہیں رحونیاتی ذرائع نے بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں یہ 96 کم و کر بانوے ترانوے پر آ سکتے ہیں اور یہ بات پہلے سے بدمزہ آل پاکستان متحدہ سنّی انصاف تحریک اتحاد کونسل کو مزید بدمزہ کر سکتی تھی۔
بدمزدگی سے بچنا اچھی بات ہے۔
______
حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری ایوان میں براجمان ایک اور صاحب کو بھیجی، لیکن براجمان صاحب نے سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ آئین کے مطابق 29 تاریخ کو اجلاس ہونا سخت سے زیادہ ضروری ہے۔
گویا براجمان صاحب نے اس عفیفہ عمر رسیدہ کا کردار ادا کیا جس نے اپنا مرغا بغل میں دبا دوسرے گائوں کی راہ لی کہ نہ یہ مرغا ہو گا نہ سحر کی اذان ہو گی، گائوں والے بس سوتے ہی رہ جائیں گے۔
براجمان صاحب نے بھی اپنا مرغا بغل میں دبا لیا ہے لیکن براجمان صاحب نے غور نہیں فرمایا، ان کی بغل میں مرغا نہیں، مرغی ہے اور وہ بھی برائلر۔
اصلی مرغا، وہ بھی دیسی، سپیکر صاحب کی بغل میں ہے۔ وہ پرسوں سے پہلے پہلے مرغے کو تھپکی دیں گے، وہ اذان دے گا اور اسمبلی کا اجلاس اپنے وقت پر ہو جائے گا۔ پھر براجمان صاحب کی مرضی، مرغی کو بدستور دبائے رکھیں یا چھری پھیر کر کڑاہی بنا لیں۔
______
براجمان صاحب پہلے بھی ایسی مزاحیہ حرکات کر چکے ہیں۔ لگ بھگ دو برس پہلے نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوا تو کہا ، حلف نہیں لوں گا۔ کسی اظہر صدیق یا سلمان اکرم راجہ جیسے جینئس نے انہیں بتایا تھا کہ آپ حلف نہیں لیں گے تو یہ عہدہ خالی رہ جائے گا لیکن حلف پھر بھی ہو گیا۔ ایک مزاحیہ حرکت تو انہیں بہت بھاری پڑ سکتی تھی جب انہوں نے بلاجواز، بلا اختیار قومی اسمبلی توڑ دی تھی لیکن انہی کے مداحوں کی سپریم کورٹ نے اسمبلی پھر سے جوڑ دی۔ براجمان صاحب اور ان کی مرغی نما مرغا دیکھتے ہی رہ گئے۔ یہ موخرالذکر مزاحیہ حرکت انہیں مستقبل عنقریب میں بدستور بھاری پڑ سکتی ہے کہ خطرہ معرض التوا میں ہے ، مرحلہ تنسیخ میں داخل ہوا اور ہو گا بھی نہیں۔ ان دونوں مزاحیہ حرکات کے بیچ میں انہوں نے اور بھی متعدد حرکات مزاحیہ کا ارتکاب کیا، آپ کو یاد ہی ہوں گی۔
______
آل پاکستان متحدہ سنّی انصاف تحریک اتحاد کونسل کے رسمی صدر تو بابر خاں صاحب ہیں لیکن عملاً اس کی ’’سربراہی‘‘ مروت قبیلے کے ایک شعلہ فشاں مقرر شیر افضل مروت کے پاس ہے۔ چند روز قبل انہوں نے یہ کہہ کر بابر خاں کو پارٹی کی رسمی سربراہی سے معزول کر دیا تھا کہ وہ شریف آدمی ہیں۔ بابر خاں دونوں ہاتھوں سے دستار تھامتے رہ گئے کہ زمانہ نازک ہے۔ بعدازاں مروت صاحب نے شریف آدمی سے جپھّی ڈالی اور انہیں عہدے پر بحال کر دیا۔
گزشتہ روز مروت صاحب ایک ٹی وی پر نمودار ہوئے اور فرمایا ،9 مئی کو کیا ہوا تھا، کچھ بھی نہیں ہوا تھا ، ایک بھی فوجی نہیں مرا تھا جبکہ ہمارے 25 کارکن شہید ہوئے تھے۔ مرا اور شہید کے الفاظ مروت صاحب ہی نے ادا کئے۔
25 آدمی کہاں ’’شہید‘‘ ہوئے، اس کی کوئی رپورٹ کسی کو نہیں ملی، نہ کسی نے سنا کہ ان کا جنازہ کہیں ہوا۔ البتہ ایک غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق جب حقیقی آزادی کے مجاہد ریڈیو سٹیشن پشاور کی عمارت کو نذر آتش کر رہے تھے تو وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ چار پانچ مجاہد پہلے ہی عمارت کے اندر جا چکے ہیں۔ غیر مصدقہ زرپورٹ کے مطابق ان میں سے تین یا چار لوگ جل کر شہید ہو گئے لیکن یہ اطلاع بھی تصدیق کا درجہ نہیں پا سکی ہے۔
مروت صاحب کو ان 25 شہدا کی قبروں کی نشاندہی ضرور کرنی چاہیے تاکہ احباب جا کر پھول چڑھا سکیں۔ بہرحال، مروت صاحب کے اس انٹرویو سے ایک ڈاکٹرائن ضرور برآمد ہوئی اور وہ ڈاکٹرائن یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ پاکستانی فوج کی عمارات پر حملہ کر دیں اور فوجی جوان لازمی دفاعی کارروائی کرتے ہوئے گولی چلا دیں (جو کہ انہوں نے نہیں چلائی) اور اس گولی سے کوئی حملہ آور مر جائے تو وہ شہید ہو گا اور اگر حملہ آوروں کی گولی سے کوئی جوان جان سے جائے تو اسے ’’مر گیا‘‘ کا خطاب دیا جائے گا۔ پاکستان کے مایہ ناز پراپرٹی ٹائیکون کے زیر کنٹرول الیکٹرانک میڈیا سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس ڈاکٹرائن کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے۔
______
مایہ ناز پراپرٹی ٹائیکون کے زیر کنٹرول ایک میڈیا گروپ کے نسبتاً کم مایہ ناز تجزیہ نگار نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ خان صاحب کو اس الیکشن میں پچھلے الیکشن سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔
اڑھائی کروڑ نئے نوجوان ووٹروں کے باوجود درحقیقت خان صاحب کو پچھلے الیکشن سے کئی لاکھ ووٹ کم پڑے، وفاق اور پنجاب دونوں ان کے ہاتھ سے نکل گئے اور بلوچستان بھی، سندھ میں وجود برائے نام سے بھی کم رہ گیا مایہ ناز پراپرٹی ٹائیکون کا تجزیہ نگاراسے ’’زیادہ کامیابی‘‘ کہتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ امتحان میں تھرڈ ڈویڑن لینے والا سیکنڈ ڈویڑن میں پاس ہونے والے سے زیادہ مایہ ناز اور بلندپایہ ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے قومی اسمبلی کے اجلاس کو غیر آئینی قرار دے دیا

QOSHE - صدر صاحب کا مرغا  - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

صدر صاحب کا مرغا 

13 2
27.02.2024

الیکشن کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ بھی طے ہوا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنا لی ، سندھ میں پیپلز پارٹی نے۔ پختونحواہ میں’آزاد‘ حکومت ہے بلکہ اب تو حقیقی طور پر آزاد۔ کئی علاقوں میں ٹی ٹی پی نے غلبہ جما لیا ہے اور ایک صحافی کی رپورٹ کے مطابق بازاروں مارکیٹوں میں ان کا راج ہے، جو چاہے، کسی بھی دکان سے کتنی بھی مقدار میں اٹھانا چاہیں، اٹھا لیتے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں، مزید براں انہوں نے اپنی رٹ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے جا بجا ناکے، ٹول ٹیکس بھی بنا لئے ہیں اور بہت سے مفید ٹیکس نافذ کر رہے ہیں۔ حقیقی آزادی کی منزل گویا مل گئی لیکن بعض ستارہ شناسوں کا کہنا ہے کہ انہیں، یہ تو حقیقی آزادی کا محض ٹریلر ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
بلوچستان میں تین تہائی کے فارمولہ کی حکومت ہے۔ ایک تہائی پیپلز پارٹی کو، دوسری تہائی مسلم لیگ ن کو اور تیسری تہائی وغیرہ وغیرہ کو اقتدار مل گا، وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہو گا، گویا پیپلز پارٹی کی تہائی دیگر دو تہائی پر بھاری ہو گی۔
وفاق میں حکومت کس کی ، ابھی واضح نہیں ہے۔ وفاقی حکومت مدّت پوری کر لے گی تبھی یہ اندازہ ہو سکے گا کہ کس کی حکومت تھی۔ کلیدی عہدے پیپلز پارٹی کے پاس ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ کلیدی عہدے حکومت نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم کا عہدہ ریاستی اثاثہ جاتی سیاستدان شہباز شریف کے پاس ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) فی الحال منہ دیکھتی رہ گئی کی مثال ہے۔ شہباز شریف ہردلعزیز سیاستدان ہیں، نہایت ہردلعزیز، پرویز مشرف، راحیل شریف ، جنرل باجوہ، جنرل فیض ، ثاقب نثار اور بندیال والے عمر عطا سبھی کے عزیزم رہے ہیں۔ اللہ کرے زور عزیزی ذرا زیادہ،!
______
پنجاب میں مسلم لیگ کی........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play