استاد بڑے خاں صاحب راگ سے راگنی تک
گم شدہ ماضی کا حصہ بنے بہت زمانہ پہلے بیتے دنوں کی بات ہے، ایک دن دور سے ریڈیو پر بجتا گیت کانوں میں پڑا۔ کوئی راگ ملہار میں، کلاسیکی رنگ میں گا رہا تھا۔ بہت سریلا گیت بلکہ انت سریلا۔ بول سمجھ میں نہیں آ رہے تھے لیکن جادوئی گائیکی رنگ دکھا رہی تھی۔ دھن کمال کی تھی تو تان پلٹے اور مرکیاں کمال سے بھی آگے کی چیز تھیں۔ گیت ختم ہوا، بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک د و دن بعد وہی گیت پھر کسی ریڈیو پر بجا اور اس بار قدرے قریب سے۔ کئی گیت دور سے جتنے سہانے لگتے ہیں، نزدیک سے اتنے سہانے نہیں لگتے لیکن یہ گیت پہلے سے بڑھ کر گرفت میں لے رہا تھا لیکن اس کے بول بے تکے سے لگے مثلاً مکھڑا ہی کچھ یوں تھا کہ لپک جھپک کے تُو آرے بدروا۔ بادل کے ساتھ لپک چھپک لکھنا بولنا بے تکا سا لگا۔ بادل گھر گھر کے آتے ہیں، امڈ امڈ کر آتے ہیں، گھٹا جھوم کے ، لہرا کے آتی ہے، لپک جھپک کے ساتھ طوفان آتا ہے، بادل نہیں۔ یعنی کوئی گیت لکھنے والے کو بتائے کہ میاں یہ میگھ دوت ہے، لہراتا جھومتا آئے گا، کوئی یم دوت تو نہیں جو لپک کر آئے گا اور (تن سے آتما) جھپٹ کے لے جائے گا۔ اتنا کمال کا گیت اور اتنے اناڑی بول۔ آگے چل کر سر کی کھیتی سوکھ رہی ہے اور اکڑ اکڑ کر پانی لاتو جیسے بول سنے تو شک ہوا، کہیں لکھنے والے نے مزاحیہ گیت تو نہیں لکھا۔
بعد میں پتہ چلا کہ ایسا ہی تھا۔ ”بوٹ پالش“ ایک فلم اس دور کے ترقی پسند انقلابی ادیبوں اور فلمسازوں نے بنائی........
© Nawa-i-Waqt
visit website