وغیرہ وغیرہ ……عبداللہ طارق سہیل۔

وزیر اعظم کی حلف برداری کے ساتھ ہی حکومت سازی کا ابتدائی مرحلہ مکمل ہو گیا۔ ہفتہ عشرہ بعد چیئرمین سینٹ اور صدر مملکت کا انتخاب ہو گا۔ زرداری صدر بنیں گے اور شنید ہے کہ کاکڑ صاحب سبکدوش نگران وزیراعظم چیئرمین سینٹ کا عہدہ سنبھالیں گے۔ اس انتخاب کے بعد حکومت سازی کی تکمیل ہو جائے گی۔
یہ پارٹنر شپ والی حکومت ہو گی۔ ایک پارٹنر زیادہ بھاری یعنی آصف زرداری ہوں گے، دوسرے پارٹنر ذرا کم بھاری کاکڑ صاحب ہوں گے۔ یہ دو فریقی حکومت ، امید ہے کہ بہتر کارکردگی کامظاہرہ کرے گی، خصوصاً اس لئے بھی کہ اس پارٹنر شپ کو شہباز شریف جیسا قابل معاون خصوصی یا مشیر خصوصی مناسب مشوروں کیلئے دستیاب ہو گا۔ براہ کرم معاون خصوصی کو مہمان خصوصی مت پڑھا جائے۔ معاون خصوصی کو ازراہ احترام وزیر اعظم کے نام سے پکارا جائے گا۔
کاکڑ صاحب کا نگران وزیر اعظم کے طور پر بلوچستان کے بلوچوں کیلئے قدرے تلخ تجربہ ہے۔ بندہ بلوچ کے اوقات کاکڑ صاحب سے پہلے بھی تلخ تر تھے، ان کی نگرانی میں تلخ ترین ہو گئے۔ امید ہے اب ’’ڈی جیکٹو‘‘ وزیر اعظم کے طور پر وہ بلوچوں سے روا رکھے گئے ’’حسن سلوک‘‘ میں قدرے لچک دکھائیں گے۔ ایسا ہونا تو نہیں ہے لیکن امید ظاہر کرنے میں کیا خرابی ہے۔
________
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوتا صاحب نے کہا کہ وہ وزیر اعظم ہیں۔ ان کی تقریر کے دوران نماز کا وقفہ کرنے کی اجازت سپیکر صاحب نے طلب کی تو پوتا صاحب نے فرمایا، میں وزیر اعظم ہوں، جب تک چاہوں گا، تقریر کروں گا۔ ان کے حکم پر، قومی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار _ نماز کا وقفہ__ نہیں کیا گیا۔ پوتا صاحب اسمبلی میں اس دور کے صاحب امربالعروف اور اولی الامر کے نمائندہ خاص ہیں۔ مخصوص حالات میں، سنا ہے کہ صاحب امر بالمعرو ف نماز تو کیا، نماز جمعہ بھی ساقط اور موقوف کر سکتا ہے۔ سنا ہے، پکّا پتہ نہیں۔ اور اگر درست سنا ہے تو پوتا صاحب کے اس اقدام پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔ پوتا صاحب اور ان کی جماعت حقیقی آزادی کیلئے جنگ لڑ رہی ہے، جنگ کے دوران ایک نماز ساقط نہیں ہو سکتی، باری باری لوگ نماز پڑھیں، حکم کچھ اس طرح کا ہے۔ بہرحال، صاحب امر بالمعرو ف اور اولی الامر اس دور کے مجتہد بھی تو ہیں، اجتہاد کر لیا ہو گا۔
________
پوتا صاحب سے ایوان کی راہداری میں ایک تاریخ سے نابلد رپورٹر نے یہ سوال پوچھ لیا کہ حضرت آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، آپ کے بڑے باواجی نے تو مادر ملت کا الیکشن چرا لیا تھا اور مادر ملت کے ساتھ بڑا ناروا سلوک کیا تھا۔
اس پر پوتا صاحب ناراض ہوئے، فرمایا کہ آپ کو حقائق کا پتہ ہی نہیں ہے۔ یعنی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
اہل فکر و نظر نے جب اس مکالمے کی خبر سنی یا پڑھی تو وہ حقیقت جاننے کیلئے سرگرم ہو گئے اور بنی گالا ہائوس آف ہسٹاریکل ریسرچ اور زمان پارک آرکائیو آف ہسٹری سے رجوع کیا اور مناسب تحقیق کے بعد اس مناسب تر نتیجے پر پہنچے کہ 1965ء کے صدارتی الیکشن میں جملہ دھاندلی کا ارتکاب مادر ملت نے کیا تھا، بڑے باوا جانی قطعاً بے قصور تھے اور مظلوم بھی__ اور ظلم یہ کیا کہ دھاندلی کرنے کے بعد الٹا اس کا الزام مظلوم باوا جانی پر لگا دیا۔
مناسب ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان کو حقیقی آزادی دلانے کی حالیہ جنگ کے بانی بھی بڑے باوا جانی تھے۔ قائد اعظم نے ملک کو غیر حقیقی آزادی دلائی تھی، بڑے باوا جانی نے امریکہ کی مدد سے ملک کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کیا۔ پوتا صاحب کی پارٹی آج پھر امریکہ کی مدد سے پاکستان کو حقیقی آزادی دلانے کی جو جنگ لڑ رہی ہے، یہ اسی بڑے باوا جانی کی جنگ آزادی کا پارٹ ٹو یا اگلا مرحلہ ہے۔
________
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خوب غل غپاڑہ ہوا اور بی بی سی ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ساری شرارت حکمران جماعت (یعنی ن لیگ) کی تھی۔
لکھا ہے، لیگ کے ایک رکن نے حقیقی آزادی والوں کو گھڑی دکھائی جس پر وہ مشتعل ہو گئے اور شور محشر برپا کر دیا۔ نعرے لگا لگا کر تھک گئے اور خاموشی طاری ہونے لگی تو لیگ والوں نے پھر گھڑی دکھا دی اور دم توڑتا شور پھر سے شروع ہو گیا۔ شور مچامچا کر پھر تھک گئے توشرارتی رکن نے ایک مرتبہ پھر گھڑی لہرائی۔ اور پھر سے وہی ہنگامہ۔
اس گھڑی میں ایساکیا تھا؟۔ یہ گھڑی تھی یا آلہ اشتعال ؟۔ کچھ دانائے راز حضرات کا کہنا ہے کہ دراصل گھڑی حقیقی آزادی کی تھکی ماندی سپاہ کے لیئے حوصلے کا منبع ہے۔ یعنی((SOURCE OF INSPIRATION)) ہے۔
کہیں حکمران جماعت نے سپاہ آزادی کو مزید ’’انسپائر‘‘ کرنے کیلئے ایک بڑی سی گھڑی بلکہ گھڑیال پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ہی لٹکا دیا تو…
تو غضب ہی نہیں ہو جائے گا۔؟
________
چین، سعودی عرب، امارات، ترکی ایران وغیرہ دیگر ملکوں نے نئی حکومت کو مبارکباد دے ڈالی ہے یعنی انہوں نے انتخابات کے متنازعہ ہونے والا ڈھول ڈھمکا مسترد کر دیا ہے۔ چین نے تو آگے بڑھ کر سی پیک پلس کی بات بھی کر دی ہے۔
لیکن قبلہ سراج الحق نے حکومت کے مینڈیٹ کو جعلی اور مسروقہ مال قرار دیا ہے۔ انتخابات کے بعد سے وہ مسلسل مسلم لیگ پر خاص طور پر برس رہے ہیں کہ اس نے کسی اور کا مینڈیٹ ہتھیا لیا ہے۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے جماعت اسلامی کی سیٹیں چھیننے کا الزام بھی لگایا۔
الزام ، یہ موخر الذکر والا، درست ہے۔ سندھ حکومت کے ذرائع نے کراچی کے اخبار نویسوں کو بتایا کہ چھ سیٹیں صوبائی اسمبلی کی جماعت اسلامی جیت گئی تھی لیکن پھر ’’کسی جماعت‘‘ نے معاملہ الٹا دیا۔ اسی طرح صوبائی کی چار سیٹیں جماعت کے پی میں جیتی تھی، دو کا نتیجہ بدل دیا گیا اور دو پر جماعت کامیاب ہوئی لیکن دو روز بعد یہ دونوں سیٹیں بھی ری کائونٹنگ میں واپس لے لی گئیں اور جماعت صفر پر آئوٹ ہو گئی۔ یعنی__ سندھ میں ایم کیو ایم، پختونخواہ میں جماعت کے ممدوح اعظم خان کی پارٹی نے جماعت کے ساتھ ہاتھ کیا لیکن سراج الحق غصہ مسلم لیگ ن پر نکال رہے ہیں۔ پنجابی محاورہ ہے کہ گرے تو ڈونکی راجہ سے، غصہ کمہار پر۔
سراج الحق صاحب اپسوس نامی عالمی ادارے کا سروے بھی پڑھ لیں۔ یہ ادارہ پی ٹی آئی کا بہت پسندیدہ اور ’’قابل اعتبار، سچے سروے‘‘ کرنے والا ادارہ ہے (الیکشن سے پہلے کی بات ہے) اس کا سروے کہتا ہے کہ 73 فیصد دھاندلی صوبہ پختونخواہ میں اور 27 فیصد باقی ملک میں ہوئی۔ ’’کمہار‘‘ بے چارہ تو تین میں نہ تیرہ میں۔

متحدہ عرب امارات نے رمضان میں نجی شعبوں کے ملازمین کیلئے اوقات کار کم کردیئے

QOSHE - زرداری کاکڑ پارٹنر شپ۔ - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

زرداری کاکڑ پارٹنر شپ۔

12 7
05.03.2024

وغیرہ وغیرہ ……عبداللہ طارق سہیل۔

وزیر اعظم کی حلف برداری کے ساتھ ہی حکومت سازی کا ابتدائی مرحلہ مکمل ہو گیا۔ ہفتہ عشرہ بعد چیئرمین سینٹ اور صدر مملکت کا انتخاب ہو گا۔ زرداری صدر بنیں گے اور شنید ہے کہ کاکڑ صاحب سبکدوش نگران وزیراعظم چیئرمین سینٹ کا عہدہ سنبھالیں گے۔ اس انتخاب کے بعد حکومت سازی کی تکمیل ہو جائے گی۔
یہ پارٹنر شپ والی حکومت ہو گی۔ ایک پارٹنر زیادہ بھاری یعنی آصف زرداری ہوں گے، دوسرے پارٹنر ذرا کم بھاری کاکڑ صاحب ہوں گے۔ یہ دو فریقی حکومت ، امید ہے کہ بہتر کارکردگی کامظاہرہ کرے گی، خصوصاً اس لئے بھی کہ اس پارٹنر شپ کو شہباز شریف جیسا قابل معاون خصوصی یا مشیر خصوصی مناسب مشوروں کیلئے دستیاب ہو گا۔ براہ کرم معاون خصوصی کو مہمان خصوصی مت پڑھا جائے۔ معاون خصوصی کو ازراہ احترام وزیر اعظم کے نام سے پکارا جائے گا۔
کاکڑ صاحب کا نگران وزیر اعظم کے طور پر بلوچستان کے بلوچوں کیلئے قدرے تلخ تجربہ ہے۔ بندہ بلوچ کے اوقات کاکڑ صاحب سے پہلے بھی تلخ تر تھے، ان کی نگرانی میں تلخ ترین ہو گئے۔ امید ہے اب ’’ڈی جیکٹو‘‘ وزیر اعظم کے طور پر وہ بلوچوں سے روا رکھے گئے ’’حسن سلوک‘‘ میں قدرے لچک دکھائیں گے۔ ایسا ہونا تو نہیں ہے لیکن امید ظاہر کرنے میں کیا خرابی ہے۔
________
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوتا صاحب نے کہا کہ وہ وزیر اعظم ہیں۔ ان کی تقریر کے دوران نماز کا وقفہ کرنے کی اجازت سپیکر صاحب نے طلب کی تو پوتا صاحب نے فرمایا، میں وزیر اعظم ہوں، جب تک چاہوں گا، تقریر کروں گا۔ ان کے حکم پر، قومی اسمبلی کی........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play