میری سادگی اور اندیشہ ہائے دور دراز
بارہ دن گزر گئے۔ جمعہ کا روز تھا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ سے قبل سانس لینے کے نظام کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے بھاپ لینے کی تیاری کی تھی۔ اس کے لئے ابلتے پانی کی جو کیتلی میز پر رکھی منہ لپیٹتے ہوئے الٹ گئی۔ پانی کے چھینٹے بارود کی صورت دونوں پاو¿ں اور ٹانگوں پر گرے۔ درد سے چیختا کراہتا کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی بجائے دیسی ٹوٹکوں سے علاج ڈھونڈتا رہا۔ چھالے مگر مکروہ حد تک پھیلنا اور اذیت دہ ہونا شروع ہوگئے۔ بالآخر اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے برن سنٹر جانا پڑا۔ وہاں کے سٹاف سے گفتگو کے بعد احساس ہوا کہ عالمی اور ملکی سطح پر گھمبیر اور تقریباََ ناقابل حل نظرآنے والے مسائل کی بابت حاذق حکیموں کی طرح گفتگو کرنے والا نصرت جاوید درحقیقت کتنا جاہل ہے۔
جسم کی کھال جھلسنے کی وجہ سے لگے زخم بہت اذیت دہ ہوتے ہیں۔بھرنے میں دیر لگاتے ہیں۔امید تھی کہ تین یار چار بار کی مرہم پٹی کے بعد یہ کالم لکھنے کے قابل ہوجاﺅں گا۔ صبح مگر بستر سے اٹھاہی نہیں جارہا تھا۔ درد کی شدت کم کرنے کی گولیوں کی وجہ سے نیم غنودگی کے عالم میں رہتا۔ میز پر بیٹھ کر توجہ سے یہ کالم لکھنے کے قابل نہ رہا۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ چند روز یہ کالم نہ چھپا تو محض چند قریبی لوگ ہی اس کے بارے میں فکر مند ہوئے۔عمومی بے اعتنائی کا احساس ہوا۔ مذکورہ احساس نے وہ شعر یاد دلایا جس میں شاعر یہ سوچتا ہے کہ وہ جس ڈگر سے روز گزرتا ہے ایک دن وہاں سے نہ گزرا تو ”کون“دیکھے گا۔ بتدریج یہ زعم ہوا میں تحلیل ہونا شروع ہوگیا کہ قارئین کی ایک موثر تعداد میرے ”گرانقدر“ خیالات کا بے تابی سے انتظار کرتی ہے۔درد کی شدت کے ساتھ اپنے بے وقعت ہونے کے احساس نے میرا یہ کالم لکھنا بلکہ ایک ایسا عمل........
© Nawa-i-Waqt
visit website