بہت پہلے ایک فلم ’’پتی، پتنی اور وہ‘‘ کے نام سے آئی تھی۔ دیکھی نہیں اگرچہ دیکھنی چاہیے تھی تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ ’’وہ‘‘ کون ہے۔ یہاں ’’وہ‘‘ سے مراد ایسا ’’وہ‘‘ ہے جس کے گرد قوسین (اِنورٹڈ کاماز)
ایک پتی ہوتا ہے، ایک راشٹرپتی۔ ہندی میں راشٹرپتی صدر مملکت کو کہا جاتا ہے لیکن اس کے لغوی معنے شوہر الملک کے ہیں۔ جیسے مسیح الملک ہوتا ہے یا جیسے دبیر الملک ہوا کرتا ہے ویسے ہی شوہر الملک بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اصطلاح اچھی نہ لگے تو ترجمہ خاوند ملّت بھی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے نغمگی یعنی ردھم دونوں میں ہے۔
تو اس لحاظ سے آصف علی زرداری کو بھی آپ جس نام سے پکاریں، پکار سکتے ہیں۔ صدر مملکت، شوہر الملک خاوند ملت یا راشٹر پتی۔ اب راشٹرپتی تو وہ ہو گئے لیکن قوسین والا ’’وہ کون ہے؟۔
راشٹرپتی نے اچھے فیصلے کئے ہیں۔ سب سے اچھا فیصلہ انہوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا کیا۔ ہرچند بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنائیں لیکن شوہر ملّت نے مفاد ملّت بھی تو دیکھنا تھا اور مفاد ملّت کا تقاضا شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا کر ہی پورا ہو سکتا تھا۔ مفاد ملّت کو ہندی میں ’’راشٹریہ بھلا‘‘ کہتے ہیں اور راشٹریہ بھلا کا اردو ترجمہ قومی مفاد بھی کیا جاتا ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق پاکستان کا سب سے زیادہ ’’راشٹریہ بھلا‘‘ پرویز مشرف اور پھر عمران خان نے کیا۔ اب زرداری صاحب کی باری ہے۔ براہ کرم یہاں باری کو بھاری مت پڑھا جائے۔
اطلاعاتِ موثقہ کے مطابق زرداری صاحب نے کابینہ کی پہلی کھیپ کا فیصلہ ’’وہ‘‘ کے مشورے اور رہنمائی کے بعد کیا۔ دوسری کھیپ بھی ’’وہ‘‘ کے مشورے اور رہنمائی کے بعد تیار یا منتخب کر لی جائے گی اور جب یہ کھیپ منتخب کر لی جائے گی تو اس کی اطلاع اپنے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی دے دی جائے گی۔ یوں ’’راشٹرپتی، وزیر اعظم اور وہ‘‘ کی تگڑم کا سرکل پورا ہو جائے گا۔
وزیر اعظم کو ہر روز فرمان امروز کی تعمیل ذمہ داری سے کرنا ہوگی۔ فرمان امروز ’’راشٹرپتی اور ’’وہ‘‘ جاری کیا کریں گے۔ وزیر اعظم کو محتاط رہنا ہو گا کیونکہ وزیر اعظم کی کرسی آنی جانی اشیاء کے زمرے میں آتی ہے، راشٹرپتی پانچ سال کیلئے پکّے ہیں اور ’’وہ‘‘ سدا بہار پکّے۔
_____
ملک میں سیاسی ہفت روزے کی کمی تھی جو اب پی ٹی آئی نے پوری کر دی ہے۔ اس نے ’’احتجاج‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ ’’پیریاڈیکل‘‘ جاری کیا ہے جس کی اب تک تین اشاعتیں آ چکی ہیں۔ تیسری یعنی تازہ ترین اشاعت دو روز پہلے گزرے اتوار کو منظر عام پر آئی۔
سرکولیشن کی رپورٹ حوصلہ افزا نہیں، خاصی بلکہ خاصی سے زیادہ حوصلہ شکن ہے۔ ملک بھر کے سٹالز میں سے بیشتر پر سے تو بنڈل ویسے کے ویسے ہی آ گئے۔ لاہور میں سو کے قریب کاپیاں بکیں۔ کراچی میں بس پچاس سے کچھ اوپر کی سیل ہوئی۔ اسلام آباد میں چند سو البتہ پختونخواہ میں قدرے سرکولیشن دیکھی گئی۔ پشاور کے بڑے سٹال پر دو ہزار سے زیادہ پرچے بک گئے۔ ’’گنڈا پور نیوز سٹال‘‘ حال ہی میں کھلا ہے، دو ہزار پرچہ اس سٹال سے سرکولیٹ ہوا۔ اطلاع ہے کہ ایک دو ہفتے پرچہ شائع نہیں ہو گا البتہ 23 مارچ کو اس کی چوتھی اشاعت ہوگی لیکن اس کی سیل صرف اسلام آباد میں ہو گی۔
_____
کوئی نامور آدمی گزر جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا پیدا کیا گیا خلا پْر نہیں ہو گا۔ نامور صرف نیک نام کو نہیں کہتے، بدنام کو بھی نامور کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے جیسے کہ مارلن منرو، راسپوٹین، امیر علی ٹھگ، ڈبل شاہ۔ سبھی کے سبھی نامور تھے۔ تھے کہ نہیں۔؟۔
خیر، سوال یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا خلا پر نہ ہونے والی بات درست ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ قطعی نا درست ہے۔ سائنس چاہے ماحولیاتی ہو چاہے سیاسیاتی، دونوں کا اصول یہ ہے کہ خلا ہمیشہ فوراً ہی پر ہو جاتا ہے۔ یعنی خلا کی عمر گھڑی دو گھڑی سے زیادہ نہیں۔ اور یہ اصول درست لگتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑے نامور ’’شیدا سرکار‘‘ کی سیاسی رحلت پر جو عظیم الشان خلا پیدا ہوا، وہ اگلے ہی لمحے جناب فیصل واڈا صاحب نے پْر کر دیا۔ ہر شام، یکے بعد دیگرے بلکہ بسااوقات بیک وقت تین تین چار ٹی وی چینلز پر بیٹھے ’’شیدا سرکار‘‘ کا خلا پر کرتے نظر آتے ہیں۔میں زرداری حکومت کو ڈیڑھ دو سال سے زیادہ چلنا نہیں دیکھ رہا۔ میں اگلے پانچ سال کے بعد الیکشن ہوتے نہیں دیکھ رہا۔ میں نواز شریف کو باہر جاتے دیکھ رہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔
شیدا سرکار اور واؤڈا سرکار میں ایک قدر مشترک اور بھی ہے۔ دونوں کو باری باری گیٹ نمبر چار سے فارغ خطی مل چکی ہے۔ شیدا سرکار کئی ماہ کے بعد یہ بات مان گئے تھے۔ واؤڈا صاحب مصر ہیں کہ وہ بدستور گیٹ نمبر چار کے پے رول پر ہیں لیکن کئی ماہ بعد وہ بھی مان جائیں گے۔ پھر ان کا خلا پْر کرنے کیلئے کوئی اور تشریف لے آئے گا، ٹی وی والوں کا دھندا چلتا رہے گا
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں واؤڈے، اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے۔
_____
شیدا سرکار کا معاملہ وہی ’’رتید ولے نہ از دلِ ما‘‘ والا ہے۔ یہاں ’’دلِ ما‘‘ سے مراد ان کا بے انتہا وسیع و عریض کہ جسے لق و دق بھی کہتے ہیں، فارم ہاؤس ہے۔
سیاسی طور پر وہ رحلت فرما گئے لیکن اپنے لق و دق فارم ہائوس میں وہ بدستور قید حیات میں ہیں۔ ان کے ہم نشین وہ بہت سے قیمتی حیوانات ہیں جو انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہتھیائے ہیں۔ ہتھیائے اس لئے کہ خود ان کا مقولہ ہے کہ خرید کر تو انہوں نے زندگی میں کبھی ایک لقمہ بھی نہیں کھایا۔ چلئے ، آپ کو ہتھیانے کے لفظ پر اعتراض ہے تو اسے ’’عطیہ یا تحفہ‘‘ میں لئے گئے لکھ دیتے ہیں۔
_____
جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق نے کہا ہے کہ ایک بار پھر وہی چور اور ڈاکو اسمبلیوں میں آ گئے جو پون صدی سے آتے رہے ہیں۔
نہیں قبلہ، سارے کے سارے چور ڈاکو نہیں، اس بار 92 یا 90 کی تعداد میں صادق امین اور صلحائے کرام بھی ایوان میں پہنچے ہیں۔ کھول آنکھ، زمیں دیکھ اور اسمبلی کو پھر سے دیکھ۔
_____
آٹھ کمروں پر مشتمل اڈیالہ گیسٹ ہائوس کے مکین کو دانتوں کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ شاید زیادہ دیسی مرغے بکرے کھانے کا سائڈ افیکٹ ہوا ہو۔
ایک ممتاز ڈینٹل ڈاکٹر نے حال ہی میں آئینی عہدہ خالی کیا ہے۔ کیوں نہ انہیں اڈیالہ ریسٹ ہائوس میں ڈیوٹی دے دی جائے جہاں وہ 24 گھنٹے مکین صاحب کے دانتوں کی دیکھ بھال کیا کریں؟

محمد عامر تماشائی کی جانب سے فکسر کہنے پر غصے میں آگئے

QOSHE - راشٹرم پتی، پتنی اور ’’وہ‘‘ - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

راشٹرم پتی، پتنی اور ’’وہ‘‘

15 2
12.03.2024

بہت پہلے ایک فلم ’’پتی، پتنی اور وہ‘‘ کے نام سے آئی تھی۔ دیکھی نہیں اگرچہ دیکھنی چاہیے تھی تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ ’’وہ‘‘ کون ہے۔ یہاں ’’وہ‘‘ سے مراد ایسا ’’وہ‘‘ ہے جس کے گرد قوسین (اِنورٹڈ کاماز)
ایک پتی ہوتا ہے، ایک راشٹرپتی۔ ہندی میں راشٹرپتی صدر مملکت کو کہا جاتا ہے لیکن اس کے لغوی معنے شوہر الملک کے ہیں۔ جیسے مسیح الملک ہوتا ہے یا جیسے دبیر الملک ہوا کرتا ہے ویسے ہی شوہر الملک بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اصطلاح اچھی نہ لگے تو ترجمہ خاوند ملّت بھی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے نغمگی یعنی ردھم دونوں میں ہے۔
تو اس لحاظ سے آصف علی زرداری کو بھی آپ جس نام سے پکاریں، پکار سکتے ہیں۔ صدر مملکت، شوہر الملک خاوند ملت یا راشٹر پتی۔ اب راشٹرپتی تو وہ ہو گئے لیکن قوسین والا ’’وہ کون ہے؟۔
راشٹرپتی نے اچھے فیصلے کئے ہیں۔ سب سے اچھا فیصلہ انہوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا کیا۔ ہرچند بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنائیں لیکن شوہر ملّت نے مفاد ملّت بھی تو دیکھنا تھا اور مفاد ملّت کا تقاضا شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا کر ہی پورا ہو سکتا تھا۔ مفاد ملّت کو ہندی میں ’’راشٹریہ بھلا‘‘ کہتے ہیں اور راشٹریہ بھلا کا اردو ترجمہ قومی مفاد بھی کیا جاتا ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق پاکستان کا سب سے زیادہ ’’راشٹریہ بھلا‘‘ پرویز مشرف اور پھر عمران خان نے کیا۔ اب زرداری صاحب کی باری ہے۔ براہ کرم یہاں باری کو بھاری مت پڑھا جائے۔
اطلاعاتِ موثقہ کے مطابق زرداری صاحب نے کابینہ کی پہلی کھیپ کا........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play