ہم کیا، ہماری صحافت کیا
تقریباََ ایک ہفتہ قبل خبر آئی تھی کہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے گردونواح سے دہشت گردی پر نگاہ رکھنے والے حکام نے چند لوگوں کو جدید اسلحہ سمیت گرفتار کیا ہے۔ بعدازاں معلوم یہ بھی ہوا کہ گرفتار شدگان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ تعداد ان کی تین تھی۔ تفتیش کے دوران مگر ان تینوں نے حکام کو یہ اطلاع بھی دی کہ ان کا گروہ فقط تین افراد ہی پر مشتمل نہیں۔ دیگر لوگ دائیں بائیں ہوگئے ہیں۔اس گروہ سے مبینہ طورپر اڈیالہ جیل کے اندر واقع کئی مقامات کے نقشے بھی دریافت ہوئے۔ ہدف لہٰذا اس گروہ کا اڈیالہ جیل پر حملہ بتایا گیا۔
پرانی وضع کا صحافی ہوں۔ مبینہ دہشت گرد گروہ کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا تو اپنے تئیں یہ فرض کرلیا کہ غالباََ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں چند ہائی پروفائل دہشت گرد رکھے گئے ہونگے۔تعلق ان کابھی افغانستان سے ہوگا۔اڈیالہ جیل پر حملے کے ذریعے ان کی رہائی کی کاوش ہوگی۔ ذہن میں ابھرے شک کی تصدیق کے لئے ان نوجوان اور متحرک ر پورٹروں سے رابطہ کیا جو ان دنوں امن وامان کا تحفظ بنانے والے اداروں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ ان سب نے فرداََ فرداََ اطلاع یہ دی کہ اڈیالہ جیل میں کوئی ایسا ہائی پروفائل قیدی موجود نہیں ہے جس کی رہائی کیلئے جدید ترین اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کا گروہ وہاں دھاوا بول کر انہیں رہا کروانے کی ضرورت محسوس کرے۔ نظر بظاہر ان کا مقصد پاکستان کی ریاست اور عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے اہم ترین دفاتر کے عین درمیان موجود اس جیل پر حملہ آور بھی ہوسکتے ہیں جہاں عمران خان جیسے........
© Nawa-i-Waqt
visit website