سنگین نتائج کی برآمدات
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ نواز شریف نے مہنگائی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ بجلی اور گیس اور کتنی مہنگی ہو گی، حکومت عوام کے صبر کو کب تک آزمائے گی۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ابھی بہت مہنگی ہو گی اور بہت بار ہو گی، دوسری بات کا جواب ہے کہ کم از کم پانچ برس تو ضرور عوام کا صبر آزمایا جائے گا۔ پھر کیا ہو گا، یہ پھر آنے پر دیکھا جائے گا۔
بیان دلچسپ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی تجویز یاد آ گئی جو انہوں نے الیکشن نتائج پر ردّعمل دیتے ہوئے دی تھی۔ انہوں نے نواز شریف کو تجویز دی تھی کہ وہ ان (مولانا) سے مل کر اپوزیشن میں بیٹھیں۔ نواز شریف نے اس قطعی قابل عمل تجویز پر عمل نہیں کیا۔
عوام کی تکالیف پر نواز شریف کی تشویش قابل تعریف ہے لیکن عوام کی اکثریت کیلئے ناقابل فہم بھی۔ اب اندر کی بات تو بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں، یہ کہ وفاق میں حکومت ن لیگ کی نہیں۔ کچھ ویسا ہی معاملہ ہے جیسا گنڈا پور کی مشہور زمانہ بلیک لیبل والی بوتل کا تھا کہ اندر ’’اسلامی شہد‘‘ تھا لیکن لوگ لیبل دیکھ کر دھوکہ کھا گئے۔ اس حکومت پر لیبل ن لیگ کا ہے، اندر مال کچھ اور ہے۔
میں کالم لکھتا ہوں جو اخبار میں چھپتا ہے اس لئے بعض محلے دار مجھے بھی ’’باخبر عناصر‘‘ میں شمار کر لیتے ہیں، غلطی ہائے مفاہیم مت پوچھ، بہرحال، اس غلط فہمی کا شکار ایک ہمسائے نے پوچھا، موجودہ حکومت میں وزیر اعظم کا پورٹ فولیو کس وزیر کے پاس ہے، اورنگ زیب وزیر خزانہ کے پاس یا محسن نقوی وزیر داخلہ کے پاس۔ میں سر کھجاتے رہ گیا۔ کچھ غور و فکر اور تدبر سے کام لینے کے بعد جواب دیا، میرا خیال ہے وزیر اعظم کا محکمہ ان دونوں حضرات کے پاس ہے، برابر........
© Nawa-i-Waqt
visit website