"نماز بخشوانے گئے اور
اپنے صحافتی کیرئیر کے 25سے زیادہ برس میں نے پاکستان کے امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے بنیادی اصول اور پہلوئوں پر توجہ دینے میں گزارے ہیں۔برسوں کے تجربے سے جو سیکھا وہ اصرار کرتا ہے کہ پاکستان میں ’’اصل جمہوریت‘‘ اور انسانی حقوق وغیرہ کا تحفظ واشنگٹن کا دردِ سر نہیں۔ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا امریکہ اگر ان دونوں معاملات کے بارے میں واقعتا فکر مند ہوتا تو صحافیو ں کو برسرعام کوڑے مارنے والی ضیاء حکومت اس کی دس برس تک اتحادی نہ ہوتی۔ جنرل ضیاء کے بعد جنرل مشرف بھی 1999ء سے 2008ء تک ہمارے طاقت ور ترین صدر نہ رہتے۔ عاشقان عمران کا ایک گروہ مگر میری دانست میں ایک اور ’’امریکہ‘‘ دریافت کرچکا ہے جو پاکستان میں جمہوریت کے معیار اور انسانی حقوق وغیرہ کے بارے میں بہت متفکر رہتا ہے۔
عاشقان عمران کا یہ گروہ یہ خبر سن کر بہت خوش ہوا تھا کہ امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر ڈونلڈ لو کو امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی نے طلب کرلیا ہے۔یاد رہے کہ 2022ء سے تحریک انصاف کی قیادت مسلسل یہ الزام لگارہی ہے کہ مذکورہ افسر نے عمران حکومت کو دھمکی آمیز پیغام بھجوائے تھے۔وجہ یہ بتائی گئی کہ عمران خان کی ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ والی ’’سرکشی‘‘ سے بائیڈن انتظامیہ اْکتاگئی تھی۔وہ ’’بندے کا پتر ‘‘ بننے کو رضا مند نہ ہوئے تو انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹوادیا گیا۔
پاک-امریکہ تعلقات کی کئی جہتوں سے طویل برسوں کی آشنائی کی بدولت میں سادہ ترین الفاظ میں اس کالم کے ذریعے ثابت قدمی سے........
© Nawa-i-Waqt
visit website