بشام دہشت گردی، ریاستی اداروں پر اٹھتے سوالات
کئی مہینوں سے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے پیغام ہمیں یہ مل رہا ہے کہ پاکستان کے تمام ریاستی ادارے یکسوہوکر ہمارے ہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ریاستی اداروں کی نیک نیتی اور یکسوئی ہی مگر مذکورہ ہدف کے حصول کیلئے کافی نہیں۔ سرمایہ کار دنیا کے کسی بھی حصے میں کاروباری حوالے سے داخل ہونے سے قبل وہاں امن وامان کی صورتحال کا بغور جائزہ لیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس امر پر بھی گہری توجہ دیتا ہے کہ جو ملک اسے اپنے ہاں سرمایہ کاری کو مائل کررہا ہے وہاں پہلے سے موجود غیر ملکی سرمایہ کار کیا محسوس کررہے ہیں۔
اس تناظر میں جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں چینی سرمایہ کاروں اور ان کے کارندوں کو تحفظ کا بھرپور احساس ہونا چاہیے۔ اس ملک کے ساتھ ہماری دوستی کا آغاز 1960ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ ان دنوں امریکہ کے دبائو کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ملک عوامی جمہوریہ چین سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے۔ پاکستان نے مگر امریکی خفگی مستقل مزاجی سے نظرانداز کرتے ہوئے چین کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرنے کی ٹھان لی۔ بالآخر وہ دن بھی آگیا جب بذات خود امریکہ بھی چین کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کو مجبور ہوا تو صدر نکسن کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر ہنری کسنجر نے اپنے پہلے دورہ چین کے لئے خفیہ سفارت کاری کی خاطر پاکستان کی سرزمین اور اس کے سفارتی وسائل کو استعمال کیا۔
مزید تفصیلات میں الجھے بغیر فی الفور اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ ان دنوں ہمارے ہاں سب سے پہلے نمایاں غیر ملکی سرمایہ کاری........
© Nawa-i-Waqt
visit website