پاکستان اور بھارت کے عدالتی نظام سے بالا تر کوئی تو ہے
پاکستان اور بھارت کو ’’جدید‘‘ کہلاتے ریاستی نظام کے خدوخال 1947ء میں دو الگ الگ ملک بن جانے کے باوجود مشترکہ طورپر ورثے میں ملے ہیں۔ ’’نظام عدل ‘‘ ان میں نمایاں ترین ہے۔ بنیاد اس کی برطانوی سامراج نے رکھی تھی۔ آج سے تقریباََ150سال قبل تعزیرات ہند مرتب ہوئی تھی۔ اس میں تیارکردہ قوانین کے لئے ضابطہ فوجداری بھی تیار ہوا۔ اس کے علاوہ وہ قوانین بھی متعارف ہوئے جو کاروباری لین دین اور وراثت وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں عموماََ ’’دیوانی‘‘ معاملات کہا جاتا ہے۔
’’آزادی‘‘کے 75سال گزرجانے کے باوجود پاکستان اور بھارت آج بھی ’’انصاف‘‘ کی فراہمی کے لئے انگریز ہی کے متعارف کردہ قواعد وضوابط اور فراہمی انصاف کے ڈھانچوں پر انحصار کررہے ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ گورے نے جو قوانین متعارف کروائے تھے بنیادی مقصد ان کا ہماری ان کے ہاتھوں غلامی کو ’’منظم‘‘ بنانا تھا۔ علاوہ ازیں اس تاثر کو بھی فروغ دینا تھا کہ سمندر پار سے آیا گورا ہمارے ’’وحشی اور اجڈ‘‘ عوام کو ’’مہذب‘‘ بنارہا ہے۔
انصاف کا بنیادی تقاضہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں معاشرے کا ہر شہری ’’برابر‘‘ تصور ہو۔ سامراج کی نگاہ مگر ’’دیسی‘‘ ا فراد کو اپنے برابر تصور ہی نہیں کرسکتی تھی۔ اسی باعث جو قوانین تیار ہوئے ان کا اطلاق عام شہریوں ہی پر ہوتا تھا۔ان کے اطلاق کے ذمہ دار بنیادی طورپر ڈی سی صاحب بہادر وغیرہ تھے۔ بتدریج ’’انتظامیہ‘‘ اور ’’عدلیہ‘‘ میں تقسیم یقینی بنانے کے لئے فقط اوپری سطح پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ جیسے اداروں کو عمومی انتظامیہ سے مختلف شکل فراہم ہوئی۔
پاکستان اور بھارت کی ’’نظام عدل‘‘ کے حوالے سے مشترکہ وراثت اب جدید دور کے تقاضوں کے ہاتھوں اپنی........
© Nawa-i-Waqt
visit website