رعونت بھری دوطرفہ"دھونس"
میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی تو فی الوقت اس فکر میں مبتلا ہیں کہ اب کی بار بازاروں میں عید کے قریب ویسی رونق دیکھنے کو نہیں مل رہی جس کے ہم عادی ہیں۔ وجہ اس بے رونقی کی یقینا وہ کمرتوڑ مہنگائی ہے جس نے لوگوں کے چہروں سے قناعت کا اظہار گزشتہ کئی برسوں سے چھین رکھا ہے۔ ہمیں رونق وقناعت لوٹانے کے بجائے حکمران اشرافیہ مگر اپنے ’’کلے‘‘ تگڑے سے تگڑے بنانے کو مرے جارہی ہے۔اس گماں میں مبتلا ہے کہ اس نے ’’دائو‘‘ لگاکر اقتدار پر اپنا قبضہ ’’پکّا‘‘ کرلیا تو ’’دشمن‘‘ بے بس ہوا فقط دیکھتا ہی رہ جائے گا۔
8فروری2024ء کے دن جو انتخاب ہوا اس کے حوالے سے ٹھوس اعدادوشمار ہمیں میسر نہیں۔ان کی عدم موجودگی لیکن اس تاثر کو رد کرنے میں ناکام رہی کہ پشاور سے کراچی تک ووٹروں کی بے پناہ تعداد واضح نظر آتی ضدکے ساتھ گھروں سے نکلی اور بیلٹ پیپروں پر ’’قیدی نمبر804‘‘ کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشان عاشقانہ لگن کے ساتھ ڈھونڈ لئے۔ ان پر مہر لگائی اور دلوں میں کئی مہینوں سے جمع ہوئی بھڑاس کے اظہار کے بعد گھروں کو لوٹ گئے۔ انتخابی نتائج مگر مذکورہ بالا تاثر کے برعکس برآمد ہوئے۔ میرے اور آپ جیسے پاکستانیوں کے پاس یہ حق اور اس کے حقیقی استعمال کے لئے ایسا کوئی فورم موجود نہیں جس کی بدولت معلوم کیا جاسکے کہ 8فروری 2024ء کے دن درحقیقت کیا ہوا تھا۔
اس سوال پر غور کئے جاتا ہوں تو یہ سوچ کر آگے بڑھنے کو مجبور ہوجاتاہوں کہ ’’جمہوریت‘‘ ہمارے ہاں تو کبھی کبھار پھیرا ڈالتی ہے۔ مذکورہ نظام کی بدولت مگر امریکہ خود کو دنیا کی واحد سپرطاقت کہلوانے کے قابل ہوا تھا۔ وہاں کی جمہوری اور انتخابی روایات بہت توانا ہیں اور ان کی رکھوالی کیلئے بے پناہ ادارے بھی موجود ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے بھی لیکن........
© Nawa-i-Waqt
visit website