ایوانِ بالا کا "مٹی پاؤ" والا رویّہ۔
وطن عزیز میں منتخب اداروں کی ساکھ شاذہی قابل رشک رہی ہے۔ 2017ء سے مگر سینٹ کی توقیر بہت تیزی سے برباد ہونا شروع ہوگئی تھی۔ بلوچستان سے اس ادارے کے چیئرمین بنے صادق سنجرانی نے اس تناظر میں حیران کن حد تک فدویانہ کردار ادا کیا۔ موصوف کے رویے سے تنگ آکر عمران حکومت کی مخالف جماعتیں یکجا ہوئیں۔ انہوں نے سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔ جب وہ تحریک ایوان میں پڑھی گئی تو 64کے قریب اراکین سینٹ نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ چند ہی لمحوں بعد مگر تنہائی میں بیٹھ کر بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے وقت 15کے قریب اراکین کے ’’ضمیر جاگ‘‘ گئے۔ صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریک اندھے کو بھی نظر آتے اعدادوشمار کے باوجود ناکام ہوگئی۔
اپنی صفوں میں سے ’’باضمیر‘‘ غداروں کی نشان دی کے بعد ان کے مقاطعہ کی بجائے سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی جماعتوں کے کرتا دھرتا افراد نے شرمناک شکست کے با وجود ’’اسی تنخواہ‘‘ پر کام کرنے کو ترجیح دی۔ اپنی قیادتوں کو احتساب بیورو سے محفوظ رکھنے کے لئے بلکہ ان دنوں کی اپوزیشن جماعتیں دو قدم آگے بڑھ کر ’’حاضر حاضر…‘‘ کا پیغام دیتی رہیں۔ ان کی خودسپردگی کی بدولت حکومت کے تیار کردہ چند قوانین ریکارڈ بناتی سرعت کے ساتھ ’’متفقہ‘‘ طورپر منظور ہوئے۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی اگرچہ اس گماں میں مبتلا رہے کہ عمران حکومت اور اس کی اپوزیشن کے مابین معرکہ حق وباطل برپا ہے۔سابق وزیر اعظم اگر سیاستدانوں کا روپ دھارے’’سیاستدانوں‘‘ کو عبرت کا نشان بنانے کو تلے ہوئے ہیں تو ان کے مخالف ’’ووٹ کو........
© Nawa-i-Waqt
visit website