خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
برملا (نصرت جاوید )۔
نام لینے سے گریز ہی بہتر۔ چند مہینوں سے مگر اپنے سے بہت سینئر چند صحافیوں کے کالم غور سے پڑھ رہا ہوں۔ عمر کے آخری حصے میں وہ مجرموں کی طرح اعتراف کررہے ہیں کہ عمر بھر صحافت کی نذر کرنے کے باوجود وہ ’’سچ‘‘ دریافت کرنے میں ناکام رہے۔ ’’سچ‘‘ اگر جان بھی گئے تو اسے بیان کرنے کی ہمت نصیب نہ ہوئی۔ اپنے گناہوں کے اعتراف کے بعد وہ اپنی ہی عمر کے سیاستدانوں پر لعنت ملامت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ شدت سے البتہ قوم کو امید بھی دلائے چلے جارہے ہیں کہ پاکستان کی آبادی کا 60فی صد شمار ہوتے نوجوان اب ملک سنبھالنے کو بے چین ہیں۔ ’’نئی سوچ‘‘ کے حامل یہ نوجوان اخبار جیسے ’’فرسودہ‘‘ ذریعہ ابلاغ پر اعتبار نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ’’نئے خیالات‘‘گھر گھر پہنچارہے ہیں۔ہم سب کو سرجھکائے ان کی ’’استادی‘‘ قبول کرنا ہوگی۔ اپنے اقبال نے بھی تو اس خواہش کا اظہار کررکھا ہے کہ ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘۔
اپنے سے بہت سینئر صحافیوں کے تواتر سے بیان کردہ خیالات کو میں نے سنجیدگی سے لیا۔ انہیں اگرچہ گھر آئے اخبارات ہی کے ذریعے پڑھا تھا جنہیں وہ ’’فرسودہ‘‘ ذریعہ اظہار شمار کرتے ہیں۔ ’’نئے خیالات‘‘ کے حامل نوجوانوں کی بے پناہ اکثریت اگرچہ جس سیاستدان کو دیوانگی کی حد تک چاہتی ہے اس کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں عرصہ ہوا داخل ہوچکے ہیں جسے ’’بزرگی‘‘ کے خانے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ انگریزی کا اگرچہ ایک محاورہ ہے جو عمر کو محض ایک ’’نمبر‘‘ یا ’’عدد‘‘ شمار کرتا ہے۔ اس کی بنیاد پرآپ کی سوچ کو یکسررد یا منظور نہیں کرتا۔
خواہ مخواہ کے پھکڑپن میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اعتراف کرتا ہوں کہ اپنے سے بہت سینئر صحافیوں کے........
© Nawa-i-Waqt
visit website