حکومت میں کوئی بھی ہو اسے اپوزیشن کبھی اچھی نہیں لگتی، حکومت میں موجود ایک جماعت ہو یا حکومت اتحادی ہو یعنی ایک سے زائد جماعتیں ہوں سب متحد ہو کر ہر حال میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جتنی مضبوط اپوزیشن ہو حکومت کے لیے اتنا ہی اچھا ہوتا ہے کیونکہ مضبوط اپوزیشن حکومت کو جگائے رکھتی ہے۔ تگڑی اپوزیشن تو حکومت کی بڑی مددگار ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے نہ تو حکومت اپوزیشن کو اس کا جائز مقام دیتی ہے نہ اپوزیشن اہم معاملات میں قومی مفاد کے پیش نظر حکومت کا ساتھ دیتی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اپوزیشن کا گلا گھونٹ دے اور اپوزیشن ہر وقت اس تاک میں ہوتی ہے کہ کہاں کہاں، کب کب اور کیسے کیسے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرے، اسے ہر کام کرنے سے روک سکے۔ یوں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ملک و قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سارے عمل میں سرمایہ بھی قوم کا ہی خرچ ہوتا ہے۔ قوم کے رہنما ذاتی لڑائیاں بھی قوم کے خرچے پر ہی لڑتے ہیں اور لڑتے ہی جا رہے ہیں۔ ان دنوں بھی دیکھیں حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں کوئی تعمیری کام نہیں، قومی خزانے کا ضیاع ہو رہا ہے، قوم کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے، مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وسائل میں اضافے کی کوئی ترکیب اور صورت نظر نہیں آ رہی لیکن اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن میں کہیں کوئی اتفاق اور تال میل نہیں ہے۔ سب کو اپنی اپنی فکر ہے۔ ملک کے لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کی بہتری کے لیے سوچنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ ان دنوں جو کردار اپوزیشن کا ہے اور جو سوچ حکومت کی حزب اختلاف بارے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی تو ہرگز نہیں ہے یہ دونوں ایک دوسرے بارے جو سوچتے ہیں اور کیسے سوچتے ہیں اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن کا بیان ہماری آنکھیں اور دماغ کھولنے کے لیے کافی ہے۔ کاش کہ لوگ اس بیان پر سنجیدگی سے غور کریں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان سے متعلق حیران کن انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے خود بانی پی ٹی آئی کو کہتے سنا ہے کہ اپوزیشن کو پھانسی لگا دیتے ہیں۔ اب یہ الفاظ اس شخص کے حوالے سے ادا کیے گئے ہیں جو اس ملک کا وزیراعظم رہا اور وہ ملک میں جمہوریت کا علمبردار بنتا ہے آج ان کی جماعت جمہوریت جمہوریت کہتے تھکتی نہیں، جمہوریت بچانے والوں کی قیادت کی ذمہ داری نبھا رہی ہے لیکن ان سے یہ سوال ضرور ہونا چاہیے کہ کیا پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کو پھانسی لگائی جاتی ہے، کیا اس نظام حکومت میں اپوزیشن کو سنا جاتا ہے یا اس کا گلا کاٹا جاتا ہے۔ کیا پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جاتا ہے یا پھر انہیں نظام کا اہم ترین حصہ بنا کر ساتھ چلایا جاتا ہے۔ یہ حالات اور رویہ کسی ایک جماعت تک محدود یا مخصوص نہیں ہے جو بھی حکومت میں آتا ہے وہ یہی چاہتا ہے کہ سب اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہو جائیں، جو بادشاہ سلامت کو اچھا لگے وہی بولا اور سنا جائے، جو بادشاہ سلامت کو پسند ہو وہ کام کیا جائے، جو بادشاہ سلامت پڑھنا چاہیں وہی ان کے سامنے رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک میں جمہوری روئیے فروغ نہیں پا سکے۔ نام نہاد جمہوریت تو ہے لیکن کہیں حقیقی جمہوریت نہیں ہے، سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کاش کہ پاکستان کے ووٹرز کو یہ سمجھ آئے اور وہ اپنے منتخب نمائندوں یا سیاسی قیادت کو حقیقی جمہوریت کی طرف دھکیل سکیں۔ یہاں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے اور ووٹرز جو کہ خود کو تبدیلی کا بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں وہاں ذہنی غلامی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے وفاق کی جانب سے سندھ کو نظر انداز کرنے کا شکوہ کیا ہے۔ مراد علی شاہ نے وزیراعظم میاں شہباز شریف کے سامنے شکوہ کیا کہ سندھ حکومت نے پچیس ارب روپے جاری کیے، وفاق نے فنڈ نہیں دئیے جب کہ گزشتہ چار سال نئی اسکیمز میں وفاق نے سندھ کو نظر انداز کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ وفاق سے شکوہ ضرور کریں لیکن قوم کو یہ بھی بتائیں کہ کیا سندھ حکومت نے اس دوران اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں، کیا سندھ حکومت نے اپنا کام کیا ہے، کراچی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے سندھ حکومت نے کیا منصوبے شروع کیے، جو منصوبے شروع ہوئے کیا وہ پایہ تکمیل تک پہنچے یا کہیں راستے میں ہی رکے ہوئے ہیں۔ اندرون سندھ اور دیہی علاقوں کے مسائل کس نے حل کرنے ہیں، ایک طرف خیبر پختونخوا وفاق سے ناراض ہے، بلوچستان الگ اپنے مسائل بیان کرتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب کو وفاق سے کوئی مسئلہ نہیں یا پھر پنجاب خاموش رہ کر بڑے بھائی کا کردار نبھا رہا ہے۔ صوبے شکوے ضرور کریں، حقوق ضرور مانگیں لیکن فرائض و ذمہ داریوں کا بھی تو خیال کریں، فرائض و ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بغیر حقوق کا مطالبہ مناسب نہیں ہے۔ درحقیقت صوبے سب کچھ لے جاتے ہیں وفاق کے پاس کچھ نہیں رہتا۔ وفاق سے شکوے کرتے کرتے وفاق کا ساتھ دینے کا کس نے سوچنا ہے، وفاق مضبوط ہو گا تو صوبوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔
ندیم افضل چن نے پاکستان تحریک انصاف بارے کہا ہے کہ وہ غلطی پر غلطی کر رہے ہیں۔ غلطی کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے یہ تو ایک الگ بحث ہے لیکن وہاں بھی قیادت کا بحران شدید ہے۔ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا معاملہ اس کی واضح مثال ہے۔ چونکہ پی ٹی آئی میں غیر سنجیدہ لوگوں کی اکثریت ہے اور ایسے لوگوں کو شیر افضل مروت بہت پسند ہیں لیکن شاید پارٹی قیادت کسی اور انداز میں سوچتی ہے۔ شیر افضل مروت کچھ اور کہتے ہیں بیرسٹر گوہر کچھ اور حامد خان کا موقف کچھ اور ہوتا ہے۔ ان بیانات میں پارٹی پالیسی کہاں ہوتی ہے اس بارے شاید یہ تینوں اصحاب بھی وضاحت نہ دے سکیں۔
آخر میں ابن انشاء کا کلام
چل انشاء اپنے گاؤں میں
یہاں اْلجھے اْلجھے رْوپ بہت
پر اصلی کم، بہرْوپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رْکنا
جہاں سایہ کم ہو، دْھوپ بہت
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سْکھ کی چھاؤں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟
یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مْفلس ہونا گالی ہے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سْکھ کی چھاؤں میں
جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گْھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سْکھ والے
جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سْکھ کی چھاؤں میں

دریائے کابل کے بالائی علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال متوقع

QOSHE - اپوزیشن کو پھانسی؟؟؟؟؟؟ - محمد اکرم چوہدری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اپوزیشن کو پھانسی؟؟؟؟؟؟

27 1
27.04.2024

حکومت میں کوئی بھی ہو اسے اپوزیشن کبھی اچھی نہیں لگتی، حکومت میں موجود ایک جماعت ہو یا حکومت اتحادی ہو یعنی ایک سے زائد جماعتیں ہوں سب متحد ہو کر ہر حال میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جتنی مضبوط اپوزیشن ہو حکومت کے لیے اتنا ہی اچھا ہوتا ہے کیونکہ مضبوط اپوزیشن حکومت کو جگائے رکھتی ہے۔ تگڑی اپوزیشن تو حکومت کی بڑی مددگار ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے نہ تو حکومت اپوزیشن کو اس کا جائز مقام دیتی ہے نہ اپوزیشن اہم معاملات میں قومی مفاد کے پیش نظر حکومت کا ساتھ دیتی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اپوزیشن کا گلا گھونٹ دے اور اپوزیشن ہر وقت اس تاک میں ہوتی ہے کہ کہاں کہاں، کب کب اور کیسے کیسے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرے، اسے ہر کام کرنے سے روک سکے۔ یوں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ملک و قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سارے عمل میں سرمایہ بھی قوم کا ہی خرچ ہوتا ہے۔ قوم کے رہنما ذاتی لڑائیاں بھی قوم کے خرچے پر ہی لڑتے ہیں اور لڑتے ہی جا رہے ہیں۔ ان دنوں بھی دیکھیں حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں کوئی تعمیری کام نہیں، قومی خزانے کا ضیاع ہو رہا ہے، قوم کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے، مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وسائل میں اضافے کی کوئی ترکیب اور صورت نظر نہیں آ رہی لیکن اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن میں کہیں کوئی اتفاق اور تال میل نہیں ہے۔ سب کو اپنی اپنی فکر ہے۔ ملک کے لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کی بہتری کے لیے سوچنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ ان دنوں جو کردار اپوزیشن کا ہے اور جو سوچ........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play