نیٹ فلیکس کا ایک نیا ڈرامائی سلسلہ
یقین مانیں ملکی سیاست کے بارے میں کچھ ’نیا‘ لکھنے کی گنجائش محدود سے محدود تر ہوچکی ہے۔ ’سیاسی‘ موضوعات پر خود کو دہراتے ہوئے مجھ جیسے قلم گھسیٹ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے فریقین میں سے کسی ایک کے ذہن پر چھائے تعصبات وغصے ہی کو بھڑکائے چلے جارہے ہیں۔ جن کلیدی وجوہات نے ہماری سیاست کو جامد کررکھا ہے ان کے بارے میں کھل کر لکھنے کی جرأت میسر نہیں۔ وہ نصیب ہو بھی جائے تو خوف سے مفلوج ہوا ذہن حقائق کوقابل فہم زبان میں بیان کرنے کے قابل نہیں رہا۔
مجھ جیسے کاہل اور نکمّے ’صحافیوں‘ کے ساتھ پنجابی محاورے والا’ہتھ‘ یہ بھی ہوگیا کہ حکمرانوں کی جانب سے جاہل وبے شعور ٹھہرائے پاکستانیوں کو مفسدانہ خیالات سے بچانے کے لیے پہلے ٹویٹر اور اب ایکس کہلاتے پلیٹ فارم کو بند کردیا گیا ہے۔ وطن عزیز کی تقریباً تین عدالتوں میں خود کو ’حقوق‘ کاحامل شمار کرتے چند پاکستانی مذکورہ پلیٹ فارم کی بندش کے خلاف درخواستیں دے چکے ہیں۔ نوٹس پہ نوٹس اور تاریخ پہ تاریخ کے باوجود ’ایکس‘ کے ساتھ غالب کے بیان کردہ ’ہے کہ نہیں ہے‘ والا معاملہ برقرار ہے۔
ٹویٹر کی بندش سے اکتاکر ریگولر اور سوشل میڈیا کو سیاست سے ہٹ کر کچھ ایسے موضوعات کی تلاش کے لیے بھی ٹٹولنا پڑا جن پر لکھا جائے تو قارئین پڑھنے سے گریز نہ کریں۔ نئے موضوعات کی تلاش میں فیس بک کا جائزہ لیا تو وہاں ایک ڈرامائی سلسلے کے بارے میں توتکار سنائی دیتی بحث جاری تھی۔ موضوع اس بحث کا بھارت کے ایک فلم ساز اور ہدایت کار کا نیٹ فلیکس کے لیے تیار کردہ ڈرامائی سلسلہ ہے۔ نام اس سلسلے کا ہے ’ہیرامنڈی‘۔
سچی بات ہے یہ نام سن کر میں بھی چونک گیا۔ بارہ دروازوں والے پرانے لاہور کی گلیوں میں پیدا ہوکر جوان ہوا ہوں۔ کالج پہنچنے تک ’ہیرامنڈی‘ کے بارے میں تجسس لاحق رہا۔ اس کی تسکین کے لیے آٹھویں جماعت پاس کرلینے کے بعد لاہور کے رنگ محل مشن ہائی سکول سے چند دوستوں کے ہمراہ ’اس محلے‘ تک پیدل چل کر پہنچ جاتے۔ ہم جہاں سے ’اس بازار‘ تک پہنچتے تھے وہاں ’نوگزہ کی خانقاہ‘ ہے۔ وہاں تک پہنچتے ہی لیکن ہمارے قدم رک جاتے۔ خوف لاحق ہوجاتا کہ اگر کسی نے........
© Nawa-i-Waqt
visit website